کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ حکومت کی سہولت کاری سے اومنی گروپ نے صدر میں واقع اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 10 پر پچھلے 7 سال سے قبضہ جما رکھا ہے ۔ اہم ترین عمارت کا ماہانہ کرایہ 11 لاکھ روپے طے کرنے کے باوجود کسی قسم کی ادائیگی نہیں کی گئی ۔الٹامعاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے طور پر عمارت کو قومی ورثہ قرار دے کر مرمت کے نام پر اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 10کا حلیہ ہی بدل دیا۔ عمارت کو کب ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ۔اس سے محکمہ کے ڈی جی بھی لاعلم ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے قلب صدر میں واقع اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی بلڈنگ نمبر 10پر پچھلے 7سال سے اومنی گروپ نے قبضہ جما رکھا ہے ۔ جے آئی ٹی کی طرف سے سندھ کے میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل میں ملوث قرار دئیے جانے والے اومنی گروپ نے یہ عمارت زرداری دور میں حکومت سندھ کی معاونت سے 11لاکھ ماہانہ کرائے پر حاصل کرکے ڈبل اے کارپوریشن کا دفتر قائم کیا تھااور یہاں کئی اہم شخصیات کا آنا جانا تھا ،جو بعد میں منی لانڈرنگ اسکینڈل میں بھی ملوث پائے گئے۔ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق گورنر ہاؤس کے قریب عبد اللہ ہارون روڈ صدر ٹاؤن میں 9 ہزار 491 اسکوائر یارڈ پر مشتمل پلاٹ نمبر سی ایل 5/4اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 10 سیاسی اثر رسوخ کی بنا پر اومنی گروپ کے سپرد کی گئی ، 17 ستمبر 2012 کو ہونے والے معاہدے کے مطابق عمارت کا کرایہ 11 لاکھ روپے ماہانہ طے پایا گیا اور اس میں شامل تھا کہ عمارت کی مرمت اور تزئین و آرائش پر ایک کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ کئے جائیں گے ،جو بعد میں کرائے میں کاٹے جانے تھے تاہم مرمتی کام کیلئے اسٹیٹ لائف انتظامیہ سے اجازت درکار ہوگی، انتظامیہ کی طرف سے انجنیئر نامزد کیا جائے گا ،جو مرمتی کام کی نگرانی کرے گا اور معیار پر نظر رکھے گا۔دستاویزات کے مطابق معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اومنی انتظامیہ نے اپنے ہی طور پر دونوں فلورز پر دیواریں تعمیر کروا دیں، ٹیریس میں باتھ رومز کا بلاک تعمیر کر دیا ، بلڈنگ کے فرسٹ فلور پر کیفے ٹیریا تعمیر کیا گیا ۔جس پر اسٹیٹ لائف انتظامیہ نے 3 نومبر 2015 کو ڈبل اے کارپوریشن کی انتظامیہ کو واجبات ادا کرنے اور عمارت خالی کرنے کے لئے قانونی نوٹس ارسال کردیا ۔جس میں کہا گیا کہ گروپ نہ صرف نادہندہ ہے ،بلکہ اپنی مرضی سے تعمیراتی کام کروا کے اس نے معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ اسٹیٹ لائف انتظامیہ نے اس ضمن میں نیب سے بھی رجوع کیا ،تاکہ واجبات کے حصول اور اہم عمارت کے حصول کے لئے کاروائی کی جائے ،تاہم نیب حکام نے درخواست یہ کہہ کر واپس کر دی تھی کہ یہ معاملہ کرائے دار اور مالک کے درمیان کرائے کا ہے ۔اس لئے اسٹیٹ لائف انتظامیہ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ 5 ماہ گزر جانے کے باوجود اومنی گروپ کی طرف سے قانونی نوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تو 21 مارچ 2016 کو اسٹیٹ لائف انتظامیہ نے سینئر سول جج و رینٹ کلیکٹر جنوبی سے رجوع کرتے ہوئے کرائے کی اضافے کے ساتھ وصولی اور ملکیت واپس دلوانے کی استدعا کی ۔ دستاویزات کی مطابق اومنی گروپ کی طرف سے عدالت میں جمع کرائے جانے والے جواب میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے یہ بلڈنگ اپنی فرم ڈبل اے کے لئے کرائے پر حاصل کی اور 50 لاکھ روپے ایڈوانس ادا کیا۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ مرمتی کام شروع کروانے سے قبل عمارت کا مشترکہ سروے کیا گیا تھا اور تمام کام اسٹیٹ لائف انتظامیہ کی اجازت اور رضامندی سے کیا گیا تھا ۔ اومنی گروپ کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ لائف بلڈنگ 10 کو قومی ثقافتی ورثے میں شمار کیا جاتا ہے تو اس پر کام کروانے کے لئے مزید احتیاط اور توجہ کی ضرورت تھی تاہم تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس کی مرمت پر بڑی رقم خرچ کی گئی ۔ اومنی گروپ کے جواب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کی طرف کسی قسم کے واجبات نہیں ہیں اور بلڈنگ کی مرمت کا کام اسٹیٹ لائف انتظامیہ کی رضامندی سے کروایا گیا تھا۔فرسٹ سینیئر سول جج و رینٹ کنٹرولر کی عدالت میں معاملہ ابھی تک زیر التوا ہے اور 12 جنوری کو ہونے والی کیس کی سماعت کے دوران دونوں فریقین کے وکلا اور گواہ موجود تھے تاہم کیس سماعت 19 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔ ڈی جی ثقافتی ورثہ و نوادرات منظور کناسرونے رابطہ کرنے پر کہا کہ اسٹیٹ لائف بلڈنگ نمبر 10 کو ثقافتی ورثہ قرار دئیے جانے سے متعلق وہ لاعلم ہیں۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ لائف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مشتاق مہر سے ان کا مؤقف جاننے کے لئے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کال وصول نہیں کی ۔