نواز لیگ کو ڈھال بنانے کے لئے زرداری سرگرم

کراچی (وقائع نگار خصوصی) چند روزہ وقفے کے بعد طبل جنگ دوبارہ بج رہا ہے۔ سندھ میں حکومت کی تبدیلی کے لئے بے چین تحریک انصاف کے تلوے جل رہے ہیں اور جمہوری روایات کی پاسداری بنی گالہ کی کسی کھوہ میں منہ چھپائے سو رہی ہے۔ کراچی میں اترتے ہی فواد چوہدری نے وزیراعلیٰ سندھ سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ کیوں کیا؟ انہی کو پتہ ہوگا یا انہیں بھیجنے والوں کو، لیکن بہانہ وہی کرپشن ہے۔ ایسا بہانہ، جیسے نائن الیون کے بعد امریکہ کے پاس اسامہ کی تلاش کا بہانہ تھا، جس کی آڑ میں وہ جہاں چاہتا حملہ کرتا یا چھاپہ مار لیتا تھا۔ بے شک کرپشن بہت ہے، سندھ میں تو بہت ہے، مگر تختہ الٹنے کی اس کوشش کے پیچھے کرپشن کا خاتمہ نہیں، ہوتا تو سب سے پہلے متحدہ اور جی ڈی اے والے پکڑے جاتے، جن میں شامل ہر رہنما کا دامن کرپشن سے داغ دار ہے۔ کرپشن کا نعرہ تو ایک دھواں دھار آڑ ہے، جس کے پیچھے بنی گالہ کے سکندر اعظم کے بدحال دستے حرکت کر رہے ہیں اور فواد چوہدری ہراول کے کماندار ہیں۔ بات یہ ہے کہ سیاست ہو یا محبت، عاشقی دونوں جگہ صبر طلب کام ہے، مگر تمنا دل وحشی کو بے تاب کئے رکھتی ہے، اسی لئے سندھ پر جھنڈا لہرانے کی خواہش میں پی ٹی آئی اتاولی ہوچکی ہے، مگر اب یہ پرانا سندھ نہیں ہے، متحدہ ٹوٹ پھوٹ کر کنارے لگ چکی ہے اور ایک درجن قومی نشستیں جیتنے کے باوجود تحریک انصاف شہری یا دیہی سندھ میں پاوٴں ٹکانے کے لائق زمین حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جی ڈی اے پرانے مسخروں کا ٹولہ ہے، شادی بیاہ پر تفریح فراہم کرنے والے ایسے خاندانی میراثیوں کا گروپ، جسے پرانے تعلق کی رعایت سے ویل میں کچھ نہ کچھ سیٹیں مل جاتی ہیں۔ باقی رہیں دوسری جماعتیں تو وہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں، نہ ستلی کی گرہ میں، یہ تین تیرہ والی کہانی تو آپ نے سن رکھی ہوگی، نہیں سنی تو اب سن لیں، پرانے وقتوں کی بات ہے، ایک شخص کسی دور دراز شہر جانے کے لئے تیار ہوا۔ پڑوسی ملنے اور رخصت کرنے آئے، ان میں سے ایک اس اجنبی شہر کو اچھی طرح جانتا تھا، جہاں جانے والے کو جانا تھا، وقت رخصت اس نے مسافر کو الگ لے جا کر ایک خاتون کا نام اور پتہ دیا اور درخواست کی کہ اس تک اپنے عاشق کا سلام و پیام پہنچایا جائے۔ پڑوسی نے بتایا کہ خاتون اسے اچھی طرح جانتی ہیں۔ مسافر نے وعدہ کیا اور چل پڑا۔ کئی دن سفر کے بعد وہ نئے شہر پہنچا، کچھ دن اپنے تجارتی معمولات میں گزارے، پھر سلام و پیام کا وعدہ یاد آیا۔ اس نے کھیسے سے پتہ تلاش کیا اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر خاتون کے ڈیرے پر پہنچ گیا، وہ شہر کی ایک مشہور گائیکہ اور رقاصہ تھی۔ مسافر نے دربان کے ذریعے پیغام بھیجا تو اس نے ترنت بلوا لیا۔ مسافر نے ابتدائی بات چیت کے بعد پڑوسی کا سلام و پیام پہنچایا تو خاتون سوچ میں پڑ گئی، پھر اندر گئی اور ایک پوٹلی اٹھا لائی، جس میں کپڑے کی دھجیاں بھری ہوئی تھیں، پوٹلی کھول کر مسافر سے بولی۔ میرے سب سے زیادہ چاہنے والے یہ تین ہیں، جن کے نام کی الگ الگ دھجیاں ہیں۔ ان کے بعد تیرہ عاشق ہیں، جن کی یہ دھجیاں ہیں اور ان کے بعد لاتعداد عاشق ہیں، جن میں سے ہر ایک کے نام کی گرہ ستلی میں لگی ہے اور ایسی ستلیوں کا یہ ڈھیر تمہارے سامنے ہے، لیکن تم جس کا پیام لائے ہو وہ تین میں ہے نہ تیرہ میں، نہ ستلی کی گرہ میں۔ سو سندھ کی سیاست کی ستلیوں میں دیگر جماعتوں کے نام کی کوئی گرہ نہیں، اس لئے وہ میدان سے باہر ہیں اور پیپلز پارٹی ہی سندھ کی یونی پولر جماعت ہے، اس کی سب سے قریبی حریف متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے زخم چاٹنے سے ہی فرصت نہیں، اس لئے نئے مدمقابل کے طور پر تحریک انصاف سامنے آئی ہے اور اس کی پشت پر وفاقی حکومت کھڑی ہے۔ تحریک انصاف کا یہ مطالبہ بڑا سطحی اور فضول نظر آتا ہے کہ مراد علی شاہ استعفیٰ دیں اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ بے نامی اکاوٴنٹس اور بعض دوسرے مقدمات کی جے آئی ٹی میں ان کا نام آگیا ہے، اسی دلیل کو بنیاد بنایا جائے تو سب سے پہلے عمران خان کو استعفیٰ دینا چاہئے، کیونکہ ہیلی کاپٹر کیس میں ان کا نام آیا ہے۔ فواد چوہدری کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ زرداری کیس ابھی عدالت میں ہے، ان کے ساتھ شریک ملزمان کے مقدمات بھی عدالت میں ہیں اور نیب کو عدالتی فیصلے کا انتظار ہے، لیکن جو کچھ وہ اور ان کی جماعت کر رہے ہیں، ایسے میں پی پی کے لئے اسے سندھ اور مرکز مقابلہ بنا کر تعصب کی ایک نئی لہر اٹھانا مشکل نہ ہوگا۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ تحریک انصاف کو پنجاب اور کے پی کی جماعت سمجھا جاتا ہے اور اس معرکے میں متحدہ دورن خانہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑی ہوگی، کیونکہ اس کے مستقل مفادات سندھ سے وابستہ ہیں، مرکز سے نہیں۔ دوسری بات، سندھ کی قوم پرست جماعتیں چاہنے کے باوجود تحریک انصاف کی مہم جوئی کا ساتھ ایک حد سے آگے نہیں دے سکیں گی۔ آصف زرداری نے ”سندھ بچاؤ“ کا نعرہ لگا کر لسانی بنیادوں پر جوابی تحریک شروع کردی تو قوم پرست جماعتوں کے لئے فیس سیونگ مشکل ہوجائے گی، لیکن زرداری یہ ٹرمپ کارڈ تب تک نہیں کھیلیں گے، جب تک نواز لیگ سے معاملات صاف نہیں ہوجاتے اور اگر تو شہباز شریف اور زرداری ملاقات نے مرکز میں تحریک انصاف کے لئے کوئی مشکل پیدا کردی تو سندھ کارڈ کھیلنے کی نوبت نہیں آئے گی، لیکن اگر معاملہ مبہم رہا تو زرداری کا آخری مورچہ سندھ کارڈ ہوگا۔ قرائن سے یہی لگتا ہے کہ نواز لیگ پی پی کی سندھ حکومت بچانے کے لئے اپنی ڈیل خطرے میں نہیں ڈالے گی، کیونکہ سندھ میں ویسے بھی نواز لیگ کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں، سیاسی اثاثہ ہے نہ پارٹی تنظیم۔ بس کاغذی شیروں کی آنیاں جانیاں ہیں اور اس کا سب سے بڑا سبب خود نواز شریف کی ذات ہے، جنہوں نے سندھ کا سیاسی ٹھیکہ پیپلز پارٹی کو دے رکھا تھا، اس مفاہمت کے ساتھ کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں ان کے سیاسی غلبے کو چیلنج نہیں کرے گی، اس لئے جہانگیر بدر جیسے کارکن مرتے مر گئے، زرداری نے پنجاب میں زور نہیں لگایا، لیکن اس مفاہمت کو نقصان تب پہنچا، جب بلوچستان میں لیگی حکومت گرانے میں زرداری نے طاقت سے بڑھ کر زور لگایا اور پھر چیئرمین سینیٹ لانے کی لڑائی نے مفاہمت کا رہا سہا امکان بھی ختم کردیا، تاہم اب سندھ پر برائی آئی ہے تو زرداری چیئرمین سینیٹ بھی نواز لیگ کو دینے پر آمادہ ہیں اور سندھ حکومت میں حصہ دینے پر بھی، لیکن نواز شریف محتاط ہیں، اگرچہ شہباز شریف سے زرداری کی ملاقات نے قربت کے آثار پیدا کئے ہی اور مشترکہ اعلامیے میں سندھ حکومت پر تحریک انصاف کی یلغار کی مذمت کی گئی ہے، تاہم پی پی کی حمایت میں ایک حد سے آگے جانا نواز لیگ کے لئے ممکن نہیں۔ قومی سیاست کی حرکیات میں ریڈ لائن کراس کرنے کی گنجائش سب سے کم نواز لیگ کے پاس ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مریم نواز کے قریبی حلقے اور شہباز شریف، زرداری سے بات چیت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ان کا خیال ہے کہ زرداری اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ کافی مطالبات منوائے جاسکتے ہیں اور اگر نہ منوائے جاسکیں تو ان سے ہونے والے مذاکرات کو بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ سیاست میں رابطہ رکھنے پر کوئی حرج نہیں۔ کھڑکیاں کھلی ہوں تو صاف ہوا اور روشنی آتی رہتی ہے اور بدلتے مناظر بھی نظر آتے رہے ہیں۔ ادھر پی ٹی آئی کی مشکل یہ ہے کہ سندھ اسمبلی کے ذریعے تبدیلی لانے کے لئے اس کا سارا انحصار جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی پر ہے، جو بقول ایک پی ٹی آئی رہنما کے کسی ایک یا دوسری وجہ سے زرداری سے خفا ہیں۔ یا اوپر کے اشارے پر چلتے ہیں، لیکن پی پی کے ارکان اسمبلی کچے گھڑے ہیں، ان کے بل پر دریا پار کرنے کی کوشش ناکام ہوئی تو پی ٹی آئی کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، متحدہ اور جی ڈی اے کی شامت آجائے گی اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ مرغی کو تکلے کا گھاوٴ بھی کافی ہوتا ہے۔

اسلام آباد/ کراچی(نمائندہ امت/ مانیٹرنگ ڈیسک)نوازلیگ کوڈھال بنانے کیلئے آصف زرداری سرگرم ہو گئے۔قائدحزب اختلاف شہبازشریف کے چیمبر میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے بعدباقاعدہ اتحاد کا دعویٰ کر دیا۔ حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی بھی اپوزیشن سے مل گئی ہے۔شہباز شریف کی دعوت پر ان کے چیمبرمیں منعقدہ اجلاس میں پی پی قائد آصف زرداری، بلاول زرداری، خورشید شاہ، نوید قمر، شیری رحمن، ن لیگ کے رہنمائوں شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، رانا تنویر حسین، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنااللہ، سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی اور مریم اورنگزیب نے شرکت کی ۔اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کی نمائندگی مولانا اسد محمود اور مولانا عبدالواسع نے کی ،جبکہ اے این پی کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختون امیر حیدر خان ہوتی شریک ہوئے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے آغا حسن بلوچ اور حاجی ہاشم پوتزئی نے بھی خصوصی دعوت پر شرکت کی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں بی این پی کے رہنمائوں آغاحسن بلوچ اور حاجی ہا شم پوتزئی نے شرکت کر کے حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔ذرائع کے مطابق حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں اتحاد بنانے پر رضا مند ہو گئی ہیں، تاہم یہ اتحاد ابتدائی طورپر پا رلیمنٹ کے اندر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے ،جبکہ پارلیمنٹ سے باہر مشترکہ ا حتجا ج یا احتجاجی تحریک چلانے پر اتفا ق نہیں ہو سکا۔اجلاس میں حکومت کو نہ گرانے اور اسے مزید وقت دینے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے والے اقدامات پر اتفاق کیا گیا ۔اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ رہنمائوں کا اس امر پر اتفاق تھا کہ گزشتہ پانچ ماہ میں حکومت کی نااہلی، ناکامی، ناتجربہ کاری اور بے حسی کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو سنگین ترین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ شرکا متفق تھے کہ افراط زرمیں ہونے والے اضافے اور بے قابو قرض کے سبب عام آدمی مہنگائی کی بدترین چکی میں پس رہا ہے۔شرکا نے کہا کہ روزمرہ استعمال کی اشیا سمیت ادویات جس قدر مہنگی ہوئی ہیں اس نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت پرکڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے شرکا نے کہا کہ ایک جانب گیس و بجلی کا بحران ظلم ڈھارہا ہے تو دوسری جانب ان کی قیمتوں میں کیا جانے والا اضافہ مزید ظلم کے مترادف ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے قرار دیا کہ بجلی و گیس کا بحران دراصل حکومتی بدانتظامی اور نالائقی کا نتیجہ ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ معیشت کی شرح نمو میں ہونے والی واضح کمی کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں مگر اب مزید ہونے جارہے ہیں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ روپے کی قدر میں 35فیصد کمی سے ملکی و بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اربوں روپے کا اضافہ ہوا ہے، عوام و مختلف شعبہ جات کو شدید معاشی نقصان پہنچا ہے اور حکومتی عاقبت نااندیشی سے سرمایہ کاری کی فضا بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹاک ایکسچینج میں اب تک 40ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے اور کاروباری و معاشی سرگرمیاں منجمد ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایک اور ممکنہ بجٹ کی بھرپورمخالفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تیسرے بجٹ سے پہلے ہی مشکلات کا شکارعوام پر پڑنے والے بوجھ میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اجلاس میں شرکا نے آزادی اظہار رائے پر بڑھتی ہوئی قدغنوں اور ٹی وی چینلوں و میڈیا اداروں کی بندش پرسخت تشویش کا اظہارکیا اور کہا کہ میڈیا صنعت کو درپیش شدید بحران سے بڑی تعداد میں میڈیا ورکرزاورصحافی بے روزگار ہورہے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت کی صوبائی خودمختاری اوروفاقی اکائیوں کے آئینی، جمہوری و داخلی امور میں مداخلت اور منتخب حکومتیں گرانے کے رویے قابل مذمت ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ عوام کے آئینی، جمہوری، معاشی اور انسانی حقوق کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے عوامی حقوق کے دفاع کے لئے متفق و متحد ہو کر پوری قوت سے مزاحمت کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی ہوگی۔ مشترکہ کمیٹی متحدہ اپوزیشن کے پارلیمان کے اندر اور باہرکے مستقبل کے لائحہ عمل، اشتراک عمل سے آگے بڑھنے اورآئندہ ایجنڈے کے لیے تجاویز مرتب کرے گی۔ اجلاس میں بلوچستان حکومت کی صورتحال اور سینیٹ کے امور بھی زیر غور لائے گئے۔ جب آصف زرداری اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے دروازے پر ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔آصف زرداری اور شہباز شریف نے مصافحہ کیا، دونوں رہنما ایک دوسرے سے گلے ملے۔ ان کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کو ظہرانہ بھی دیا گیا۔ اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا اور طے کیا گیا کہ حکومت کو فری ہینڈ دینے کی صورت میں ملک کسی بھی خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں شفاف الیکشن کے لیے اتحاد کو بھی فعال بنانے اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیاگیا۔اجلاس میں فوجی عدالتوں کے معاملے پر حکومت سے باضابطہ رابطے کے بعد اپوزیشن کی متفقہ پالیسی واضح کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کے حق میں فیصلے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق پر حملہ کر رہی ہے ،اس پر خاموشی اختیار نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا پیپلزپارٹی کیلیے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے بل کی حمایت مشکل ہوگی۔ این آر او مانگا نہ ہمیں چاہیے۔شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کمیٹی بنادی ہے جو تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی کرے گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ مہمند ڈیم کے ٹھیکے میں بے ضابطگیاں سامنے آگئی ہیں، مہمند ڈیم کی ری بڈنگ ہونی چاہیئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے تمام مسائل کے حل کے لیے ایک ساتھ جدوجہد کرنے پر اتفاق کیا ہے،جو بھی ملک کے مفاد میں ہوگا اپوزیشن وہ راستہ اختیار کرے گی۔اجلاس کے بعد ایک صحافی نے آصف زرداری سے سوال کیا کہ کیا
اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہو سکتا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ اتحاد ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ این آر او لینا چاہتے ہیں نہ حکومت دینے کی پوزیشن میں ہے، وزیراعظم کے پارلیمنٹ آنے پر بات کریں گے۔دریں اثنا کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہاکہ سندھ حکومت غبارہ ،پن ہمارے ہاتھ میں ہے جب چاہیں گے پٹاخہ پھوڑ دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کے وزراءچاہتے ہیں کہ پانی کو اتنا گدلا کردیا جائے کہ کسی کو سمجھ نہ لگے ، 57لوگوں کو کرپشن پر ریلیف دیدیں تو ہر کاغذ پر دستخط کردیں گے ، پنجاب میں 30سال بعد نوازشریف کا دھڑن تختہ ہواہے ، پورے سندھ میں ترقی کہیں نظر نہیں آرہی ، سندھ کے حکمران عوام کیلئے نہیں بلکہ اپنے لئے فنڈز مانگتے ہیں، جعلی اکاؤ نٹس کھلوائے گئے اوران میں پیسے ڈلوائے گئے ، سندھ سے آصف زرداری اور اومنی گروپ کی بادشاہت ختم ہوچکی ، سندھ میں پولیس گردی ہورہی ہے ، سندھ حکومت کا معاملہ زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں کو آزاد ہوناچاہئے ، ہماری طرف سے کوئی قدغن نہیں ہے ، آصف زرداری ، فریال تالپور اور مراد علی شاہ کو فوری طور پر گرفتار ہونا چاہئے ، نیب کی کارکردگی سست روی کا شکار ہے ، نیب کو تفتیش کرنے کیلئے دو ماہ کا وقت دیا گیاہے ، بلاول ہاؤس کے مکینوں سے متعلق تمام ثبوت واضح ہیں۔وزیراطلاعات نے کہا کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں سندھ کے عوام کا درد ہے وہ تبدیلی چاہتا ہے، پیپلز پارٹی کے سنجیدہ لوگ بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی خود سندھ میں تبدیلی لے آئے، مراد علی شاہ استعفیٰ دیں، اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت عملی اقدامات اٹھائے گی اور پیپلز پارٹی کی اکثریت ہمارا ساتھ دے گی۔ سندھ میں حکومت کی تبدیلی کے لیے فارورڈ بلاک بنائیں گے اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ہم سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں احتسا ب ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے ،حساب مانگو تو جمہوریت خطر ے میں نظر آجاتی ہے ، کراچی میرا شہر ہے ، ہزار بار آؤ ں گا، میرے یہاں آنے سے اپوزیشن کیوں پریشان ہوجاتی ہے ، سندھ حکومت کو پنجاب سے سبق سیکھنا چاہئے ۔علاوہ ازیں فواد چوہدری نے بہادرآباد میں ایم کیوایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے رہنمائوں سے ملاقات کی ہے،ملاقات میں کنور نوید،خواجہ اظہار الحسن، وسیم اختر اور فیصل سبزواری شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے مطالبات اور کراچی پیکیج پرغور کیا گیا،متحدہ رہنمائوں نے مطالبات وزیر اطلاعات کے سامنے رکھ دیے۔متحدہ کے رہنمائوں نے اپنے دفاترحوالے کرنے کا کہا۔فواد چوہدری نے کہا کہ ایم کیو ایم کے نکات وزیر اعظم کے سامنے رکھوں گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم حکومت کی اتحادی جماعت ہے وہ حکومت کو نہیں چھوڑے گی،وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے گی۔دوسری طرف نجی ٹی وی سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہاہے کہ سندھ حکومت کا غبارہ پھوڑ نے پر کوئی اعتراض نہیں ،جب چاہیں اپنا شوق پورا کریں ، پھر وفاقی حکومت بھی بچا کر دکھائیں ، جس دن پیپلز پارٹی نے چاہا ، اس دن وفاقی حکومت بچانا ممکن نہیں رہے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment