ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد میں کرپشن کی ازسر نو تحقیقات

کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو) نیب کراچی نےسات سال بعد ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد میں ہونے والی ڈھائی ارب روپے کی کرپشن کی از سر نو تحقیقات شروع کر دی۔ ذرائع کےمطابق گزشتہ روز اچانک نیب حکام کی طرف سے سیکریٹری خزانہ سندھ کو ایک لیٹر 242270/IW-III/CO-D/T- 1/NAB(K)/2018/K-60موصول ہوا جس نے محکمہ خزانہ کے حکام کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس لیٹر کے ذریعے سیکریٹری خزانہ سندھ کو ہدایت کی گئی تھی وہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد کے افسران کے خلاف جاری کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں 2012 سے 2017 تک ہونے والی تمام ادائیگیوں کا ریکارڈ فراہم کریں۔ لیٹر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس سلسلے میں محکمہ خزانہ کی طرف سے اچھی شہرت رکھنے والے کسی آفیسر کو نامزد کیا جائے جو مطلوب ریکارڈ کی فراہمی کو یقینی بنا سکے۔ نیب حکام کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے پینشن اور جی پی فنڈ کے نام پر ہونے والی تمام ادائیگیوں کا تصدیق شدہ ریکارڈ پیش کیا جائے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں اور ان ملازمین کی بھی فہرست مانگ لی گئی ہے جن کو پینشن اور جی پی فنڈ ادا کیا گیا۔ اس مدت کے دوران ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد میں تعینات کئے جانے والے افسران کی فہرست بھی طلب کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق لیٹر موصول ہونے کے بعد محکمہ خزانہ سندھ نے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد کے متعلقہ افسران کو لیٹر ارسال کرتے ہوئے کہاہے کہ 2012 سے 2017 تک کی تمام ادائیگیوں، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات، جی پی فنڈ اور پینشن سے متعلق تمام ریکارڈ، ڈپارٹمینٹل انکوائری رپورٹ، ملازمین کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کی تفصیلات سے متعلق تمام ریکارڈ نیب حکام کے سپرد کیا جائے۔ دوسری جانب محکمہ خزانہ کی طرف سے نیب حکام کو لکھے گئے جوابی لیٹر میں ریکارڈ پیش کرنے کے لئے مہلت مانگی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق 2012 میں ریٹائرڈ ملازمین کے جعلی اکاؤنٹس کےذریعے جی پی فنڈ اور پینشن کی مد میں ہونے والی ڈھائی ارب روپے کی کرپشن کا معاملہ سامنے آیا تھا ۔درجنوں جعلی کاؤنٹس کھول کر ڈھائی ارب روپے سے زیادہ ان اکاؤنٹس میں منتقل کئے گئے۔ اس معاملے کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد کچھ افسران نے رضاکارانہ طور پر کرپشن کی بھینٹ چڑھنے والی رقم کا بڑا حصہ واپس کر دیا تھا جبکہ کچھ افسران کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں جس کو نیب حکام نے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد میں ہونے والے اس کرپشن کے معاملے پر اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کی طرف سے تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اور ایڈیشنل اکاؤنٹنٹ جنرل ساجد علی خان کو تحقیقات پر تعینات کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈپارٹمینٹل انکوائری میں جب کرپشن میں ملوث افسران کو کلین چٹ دی گئی تو اس پر اے جی سندھ نے سخت کاروائی کرتے ہوئے ایڈیشنل اکاؤنٹنٹ جنرل کو جبری رٹائرڈ کر دیا تھا اور ملوث افسران کے خلاف سخت کاروائی کی گئی تھی۔ اس تمام صورتحال کومد نظر رکھتے ہوئے نیب حکام نے اس کیس کی تحقیقات روک دی اور تحویل میں لیا گیا ریکارڈ واپس کر دیا تھا۔

Comments (0)
Add Comment