جانوروں کو سکون کے نام پرروزگار چھین لیا – متاثرین گارڈن مارکیٹ

کراچی (رپورٹ : اسامہ عادل ) گارڈن مارکیٹ کے متاثرہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ جانوروں کے سکون کے نام پر ہمار روذ گار چھین لیا گیا ،1965 میں تعمیر مارکیٹ علاقے کی شناخت تھی، جسے یقین دہانی کے باوجود مسمار کیا گیا ، گزشتہ 50 سال سے مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے سیکڑوں دکانداروں سمیت بیروزگار ہونے والے ہزاروں افراد مطالبات کی منظوری کیلئے11روز سے لگائے گئے کیمپ میں موجود ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حکام کی جانب سے متعدد بار یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ دستاویزات مکمل ہونے پر کارروائی نہیں ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق گارڈن مارکیٹ مسمار ہونے ، متبادل جگہ فراہم نہ کرنے اور اطراف کے علاقوں میں دکانوں کے کرائے میں غیر معمولی اضافے کے باعث صرف گارڈن مارکیٹ کے ہزاروں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں ،گزشتہ 50 سال سے مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے سیکڑوں افراد اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں موجود ہیں ۔ ’’امت ‘‘سے بات کرتے ہوئے گارڈن مارکیٹ کے جنرل سیکریٹری محمد آصف کا کہنا ہے کہ گارڈن مارکیٹ 50 سال پرانی تھی اور قومی ورثے کی اہمیت رکھتی تھی ، انہوں نے بتایا کہ مسماری سے قبل ہمیں چیف جسٹس سمیت متعدد افراد نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اگر مارکیٹ میں موجود دکانداروں کے پاس دستاویزات ہیں تو مارکیٹ ختم نہیں کی جائے گی ، ان کے مطابق 11 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ان کے ساتھ 3 رکنی وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی ،جس میں ایمپریس مارکیٹ اور لنڈا بازار کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ملاقات کے دوران میں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ گارڈن مارکیٹ خود کے ایم سی نے 1965 میں بنائی تھی اور وہاں موجود تمام دکانیں قانونی ہیں اور چیف جسٹس کے کہنے پر بطور ثبوت تمام دستاویزات ان کے سامنے پیش کئے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی دیکھے گی کہ اگر دستاویزات مکمل ہوئے تو مارکیٹ نہیں توڑی جائے گی اور اگر توڑی بھی گئی تو اس سے قبل متبادل جگہ فراہم کی جائے گی۔ بعد ازاں میئر کراچی ، کمشنر کراچی اور ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ سے ملاقات ہوئی تو اس دوران ان کو دستاویزات کے ساتھ بتایا کہ چیف جسٹس نے بھی ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اگر دستاویزات موجود ہیں تو مارکیٹ نہیں توڑی جائے گی، جس پر چیف جسٹس کے بات کے حوالے سے تحریری ثبوت مانگا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے ایک طرف تو تحریری ثبوت مانگا گیا تاہم دوسری جانب تحریری نوٹس میں ایک ماہ کا وقت دینے کے باوجود 2 ہفتے بعدہی مارکیٹ مسمار کر دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نوٹس کے بعد انتظامیہ سمیت دیگر افراد سے رابطہ کرنے پر کہا جاتا رہا کہ چیف جسٹس کے آرڈر ہیں ،لیکن آرڈر کی تشریح سے متعلق کسی نے کوئی بات نہ کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ مارکیٹ مسمار کردی گئی ہے تو انتظامیہ کو چاہئے کہ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے تمام دکانداروں کو متبادل جگہ فراہم کی جائے۔کیمپ میں موجود ایک اور متاثرہ دکاندار شبیر نے’’امت ‘‘کو بتایا کہ گارڈن مارکیٹ میں ان کی 4 دکانیں تھیں ،جن کا نمبر بالترتیب 155،136،135،اور 161 تھا، تمام دکانیں بیٹری کی تھیں اور فی دکان کے ایم سی کو 15 سے 25 ہزار روپے کرایہ ادا کرتے تھے ،جب کہ 10 سے 15 افراد ان کے پاس کام کرتے تھے ،جنہیں وہ 200 روپے سے 400 روپے یومیہ دھاڑی دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا نے مذکورہ مارکیٹ میں کاروبار شروع کیا تھا اور اب ہماری تیسری نسل یہاں کام کر رہی تھی ،تاہم کے ایم سی کے آپریشن کے باعث کا کاروبار تباہ ہوگیا ، انہوں نے بتایا کہ گارڈن مارکیٹ میں دکانوں کی مسماری کے بعد اطراف کے علاقوں میں دکانیں حاصل کرنا چاہی ،لیکن دکان مالکان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایوں میں کئی گناہ اضافہ کر دیا ہے اور عام سی دکان کا کرایا 50 ہزار روپے تک طلب کیا جا رہا ہے ،جس کے بعد عارضی طور پر پاکستان کوارٹر میں دکان کرائے پر لی ہے ،تاہم اس کا بھی معلوم نہیں کہ کب ختم کرنی پڑ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ دکانوں سے نہ صرف ان کا روزگار وابستہ تھا ،بلکہ ان کے پاس کام کرنے والے افراد کی روزی روٹی بھی انہیں دکانوں سے وابستہ تھی لیکن دکانوں کی مسماری کے بعد اپنا گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے ،جس کی وجہ سے 10 افراد کو کام سے نکالناپڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئےم کہ وہ دکانداروں کے متعلق سوچے اور وعدے کے مطابق متبادل جگہ فراہم کی جائے ۔وہیں موجود عبد الوارث نے بتایا کہ ان کی دکان شکور علوی ریڈی ایٹر کے نام سے تھی اور وہ گزشتہ 40 سال سے مارکیٹ میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 25 سال بھائی کے ساتھ کام کیا، پھر محنت سے اپنی دکان کھولی ، انہوں نے بتایا کہ ان کی دکان کا نمبر 65 اے تھا ،جہاں وہ 15 سال سے کام کر رہے تھے ، دکان کی مسائری کے بعد سامان گھر لے جا کر رکھ دیا ہے ، اریب قریب دکان حاصل کرنا چاہی بھی تو نہیں ملی اور وہ دکانیں جو مارکیٹ ختم ہونے سے قبل 3 سے 5 ہزار میں مل رہیں تھیں ۔اب انہیں دکانوں کا کرایا 25 سے 30 ہزار طلب کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کی گنجائش تھی وہ عارضی طور پر زائد کرایوں پر دکانیں حاصل کر کے اپنا کام چلا رہے ہیں ،لیکن مجھ جیسے سیکڑوں افراد حکومتی وعدے پر عمل در آمد کے منتظر ہیں ۔ ان کا گزر بسر دکان سے ہوتا تھا اور دکان پر جو دھاڑی بنتی تھی ،اسے سے اپنا گھر چلاتے تھے ،تاہم اب گزشتہ 2 ہفتوں سے بے روز گار بیٹھے ہیں اور روز دن میں کیمپ پر آ تے ہیں اور شام کو واپس خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں ۔ کیمپ میں موجود بیٹری کے کام سے وابستہ ایک دوسرے متاثرہ دکان دار اویس قریشی کا بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے 4 سال قبل انٹر کے بعد گارڈن مارکیٹ میں بیٹری کی دکان کھولی تھی ، بڑی محنت سے کام جمایا تھا اور اب جب کمانے کا وقت آیا تو مارکیٹ توڑ دی گئی ۔انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں دکانیں ان کے والد نے کے ایم سی سے لیں تھیں جس کا وہ ہر 6 ماہ بعد ٹیکس ادا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اپنی بیٹریوں کی 6 ماہ کی وارنٹی دیتے ہیں ،جبکہ مارکیٹ کی مسماری سے قبل ہی افواہوں کے باعث کام ختم ہو گیا تھا اور لوگوں نے یہ سوچ کر دکان کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ اگر دکانیں ختم ہوگئیں تو وارنٹی کہاں کلیم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 ماہ سے جمع پونجی پر گھر کام چلا رہے ہیں ۔

Comments (0)
Add Comment