اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نےاز خود نوٹسز کو محدود رکھنےکا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سو مو ٹو کا استعمال وہاں ہوگا ،جہاں دوسراحل موجود نہ ہو۔ جمعرات کو فل کورٹ ریفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ حساس اداروں کاسول معاملات میں دخل نہیں ہوناچاہیے۔فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل غلط سمجھا جاتا ہے،کوشش ہوگی سول عدالتوں میں کیس جلدنمٹیں۔ ہائیکورٹ حدود میں رہ کراختیارات استعمال کرے۔ جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ صدر پاکستان کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث ہونی چاہئے۔نامزد چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وہ جعلی مقدمات کیخلاف ڈیم بنائیں گے۔سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس موقع پر کہا کہ سپریم کورٹ نے معرکۃ الآرافیصلے دیئے-جج کی زندگی میں ڈرکی گنجائش نہیں۔تفصیلات کے مطابق نامزد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی، انہیں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور آئینی سمیت کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہا۔سبکدوش چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وہ جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ پچھلے 20 سال سے ہیں اور ہم دونوں ایک ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے، ہم ایک ساتھ جڑے بچوں کی طرح ہیں ،جو آج الگ ہو جائیں گے، کسی سرجری کے ساتھ نہیں ،بلکہ آئین کے تحت الگ ہوں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی انسانی حقوق سے متعلق خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔انہوں نے کہا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے کی کوشش کروں گا، ماتحت عدلیہ میں برسوں سے زیر التوا مقدمات کے جلد تصفیے کی کوشش ہوگی۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ غیر ضروری التوا کو روکنے کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا، جعلی مقدمات کے خلاف ڈیم بناؤں گا اور عرصہ دراز سے زیر التوا مقدمات کا قرض اتاروں گا،3 ہزار ججز 19 لاکھ مقدمات نہیں نمٹا سکتے، میں جعلی گواہوں کے خلاف بھی ڈیم بنانا چاہتا ہوں۔نامزد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں، کوشش کریں گے سول عدالتوں میں بھی جلد فیصلے ہوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا سو موٹو (از خود نوٹس) کا اختیار بہت کم استعمال کیا جائے گا اور یہ اختیار وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہیں ہوگا، ہائیکورٹ کو بھی اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہییں۔نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، پچھلے ادوار میں ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کی گئی، ملک کی ترقی کے لیے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے، جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی؟ عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی؟لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ میری رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے، میں آخری دم تک لڑوں گا، مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے ۔ترقیاتی فنڈز دینا یا صرف ٹرانسفر پوسٹنگ کرنا نہیں، صدر پاکستان کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی ضرورت ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح میں بھی ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور میں بھی ان کی طرح ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں۔ سبکدوش چیف جسٹس ثاقب نثار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آئین میں تعین کردہ حق زندگی، تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور ججز کے ضابطہ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے کام کیا۔انھوں نے بحیثیت چیف جسٹس اپنے آخری خطاب میں عدالتِ عظمیٰ کے اہم فیصلوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے کئی معرکتہ الآرا فیصلے دیے، سب سے پہلے گلگت بلتستان کا فیصلہ ہے، دوسرا مسئلہ عدالت نے آبادی میں اضافے کا اٹھایا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا۔جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھاکہ عدالت نے ملک میں پانی کی کمی کا نوٹس لیا اور پوری قوم نے پانی کے لیےعطیات دیے، پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لیے کام کیا اور ہر شخص کو عزت سے زندگی گزارنے کا حق دیا، نجی اسپتالوں کی فیسوں پر نوٹس لیا، خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرنےکے معاملے کا نوٹس لیا، عدالت نے طیبہ سمیت گھروں میں کام کرنے والے بچوں کا بھی نوٹس لیا۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ججوں کا کام انتہائی مشکل ہے، عدلیہ میں کرپشن انصاف کا قتل ہے، میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے ملک کے لیے کام کیا۔ مجھے لوگوں نے جو عزت دی ،اس کو لوٹانے کی کوشش کی، اس کے لئے سپریم کورٹ کے ججز،ملازمین اوراسٹاف کا شکر گزار ہوں۔سبکدوش چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جج کی زندگی میں ڈرکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔فل کورٹ ریفرنس میں 17 میں سے 16 ججز نے شرکت کی، جسٹس منصور علی خان شریک نہیں ہوئے۔
٭٭٭٭٭