اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے عوام کے مساوی حقوق دینے کیلئے راستہ نکال دیا ۔یہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری مقدمہ بھی تھا۔جمعرات کو جاری کیے گئے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے حکومت پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ’’پرپوزڈ آرڈر‘‘ جاری کرے جس کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دئیے جائیں گے۔عدالت نے یہ پرپوزڈ آرڈر بھی خود تیار کر کے فیصلے کے ساتھ منسلک کیا ہے اور حکومت اس میں ترمیم نہیں کر سکے گی۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے کے ساتھ ایک سمری بھی لگائی ہے جس کا مقصد عدالتی فیصلے کو سمجھنے میں مدد دینا ہے تاہم یہ سمری فیصلے کا باضابطہ حصہ نہیں۔عدالت عظمیٰ نے سمری میں کہا ہے کہ گلگت بلتسان پر عدالتی فیصلے سے کشمیر ایشو کی نوعیت تبدیل نہیں ہوگی جبکہ کشمیر پر استصواب رائے کی صورت میں گلگت بلتستان کے عوام بھی اس میں حصہ لے سکیں گے۔اس وقت تک ایک قانونی فریم ورک کے تحت خطے کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حیثیت استصواب رائے کے بغیر تبدیل نہیں کی جا سکتی، جی بی سپریم ایپلیٹ کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کئے جا سکتے ہیں۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی، ان علاقوں کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے۔ پاکستان استصواب رائے تک گلگت بلتستان کے عوام کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کا پابند ہے۔ گلگت بلتستان کی عدالتیں جی بی کونسل کی قانون سازی پر نظر ثانی کر سکتی ہیں۔ گلگت بلتستان سپریم ایپلیٹ کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کئے جا سکتے ہیں۔ سمری کے مطابق فیصلے کیلئے الجہاد ٹرسٹ 1999 پر عدالتی حکم کو بھی سامنے رکھا گیا جس میں شمالی علاقہ جات کے عوام کو چھ ماہ کے اندر اندر بنیادی حقوق دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔عدالت کے تیار کردہ پرپوزڈ آرڈر کے شروع میں کہا گیا کہ ’’چونکہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینا چاہتی ہے اور چونکہ آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت اور وقت درکار ہےتاہم عبوری اقدام کے طور پر حکومت (اس آرڈر کے ذریعے خطے کو) دیگر صوبوں کے مساوی بنیادی حقوق دینا چاہتی ہے ۔‘‘سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تجویز کردہ حکم (پرپوزڈ آرڈر) وفاقی حکومت کی سفارش پر صدر پاکستان 14 روز کے اندر نافذ کریں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ اس حکم میں تبدیلی یا ترمیم کرے تو سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔سمری کے مطابق فیصلے میں ترمیم چیلنج کیے جانے پر فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔عدالتی حکم میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 124 کے برعکس کوئی حکم نافذ نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی آئین کی کوئی شق ختم یا تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ آرٹیکل 183(3) تحت زیر سماعت آیا۔عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ہم نے ایک غیر معمولی کام کیا ہے اس ججمنٹ کی پریس سمری جاری کی ہے۔فیصلہ دینے والے بنچ میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس فیصل عرب، جسٹس جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اکبر شامل تھے۔