کراچی(رپورٹ :اطہر فاروقی)گارڈن کی مسمار کی گئی مارکیٹ کے متاثرین کے احتجاج میں ان کے اہلخانہ بھی شامل ہوگئے۔گزشتہ روز مظاہرین جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی، نے سڑکوں پر نکل کر میئر کراچی وسیم اختر سے مطالبہ کیا کہ متبادل جگہ فراہم کی جائے۔تفصیلات کے مطابق انسداد تجاوزات عملے نے 2 ہفتے قبل گارڈن کے اطراف آپریشن کرتے ہوئے 405 دکانیں اور درجن سے زائد دفاتر مسمار کیے تھے۔آپریشن سے قبل ہی میئر وسیم اختر نے متاثرہ دکانداروں سے ملاقات میں یقین دہانی کروائی تھی کہ آپریشن متبادل جگہ فراہم کرنے کے بعد ہی شروع کیا جائے گا، تاہم وعدے کے برعکس انہدامی کارروائی کرکے دکانداروں کا نقصان کردیا گیا۔آپریشن کے روز تاجر برادری کی جانب سے بھر پور احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ سڑک پر کے ایم سی اور میئر کے خلاف چاکنگ بھی کی گئی تھی ۔آپریشن کے نگراں ڈاکٹر سیف الرحمن نے متاثرین کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ایک دو روز میں متبادل جگہ فراہم کردی جائے گی، تاہم آپریشن کو 2 ہفتے گزر جانے کے بعد بھی متاثرین سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا گیا۔گارڈن متاثرین نے 7جنوری سے احتجاجی کیمپ بھی لگا رکھا ہے ، تاہم میئر کراچی، وزیر بلدیات سمیت کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا، جس پر گزشتہ روز متاثرین کے احتجاج میں ان کے اہلخانہ بھی شریک ہوگئے۔ احتجاج کے دوران خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جو ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے میئر کراچی سے متبادل جگہ فراہمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔’’امت ‘‘کو صابرہ نامی خاتون نے بتایا کہ گارڈن مارکیٹ میں میری بھائی کی 37 سالہ پرانی بیٹری کی دکان تھی۔میرا بھائی گھر کا واحد کفیل ہے ، جو میری ایک بیوہ بہن سمیت 14 افراد کی کفالت کرتا ہے ۔اس دکان سے ہمارے گھر کے علاوہ 6 دیگر افراد کا روزگار بھی وابستہ تھا۔اس طرح دکان گرا کر 7 خاندانوں کو دربدر کردیا گیا۔خاتون کا مزید کہنا تھا کہ میرے بھائی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان میں سے 4 بچوں کے دودھ کے پیسے بھی ہمیں ادھار لینا پڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میئر نے یقین دہانی کے باوجود متبادل جگہ فراہم نہیں کی، جس کے باعث بھائی کیمپ پر آکر احتجاج کررہے ہیں۔متاثرہ دکاندار نعمان طاہر کا کہنا تھا کہ گارڈن مارکیٹ میں ان کی آٹو پارٹس کی 3 دکانیں تھیں، جن کا نمبر بالترتیب 150،153اور154 تھا۔ان دکانوں میں 10 سے 13 افراد ان کے پاس کام کرتے تھے، جنہیں وہ 400 روپے سے 600 روپے یومیہ دیہاڑی دیتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ مذکورہ مارکیٹ میں 12 سال قبل کاروبار شروع کیا تھا، لیکن کے ایم سی کے آپریشن کے باعث کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ دکانوں سے ان کے خاندان سمیت دیگر افراد کے اہلخانہ کی روزی روٹی بھی وابستہ تھی۔ادھر معلوم ہوا ہے کہ انسداد تجاوزات آپریشن میں متاثر ہونے والے دکانداروں اور معروف تاجروں نے تاجر اتحاد کے چیئرمین جمیل پراچہ کی قیادت میں جمعرات کو وسیم اختر سے ملاقات بھی کی۔اس موقع پر سینئر ڈائریکٹر انسداد تجاوزات بشیر صدیقی، سینئر ڈائریکٹر اسٹیٹ تسنیم صدیقی، سینئر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور دیگر افسرا ن بھی موجود تھے۔میئر وسیم اختر کا کہنا تھا کہ متاثرہ دکانداروں کو متبادل جگہ کی فراہمی کے لئے قرعہ اندازی چند روز میں ہوگی، جس میں 1500 دکانیں الاٹ کی جائیں گی۔دکانیں منہدم کرنے کے ساتھ ساتھ کے ایم سی کے کرایہ داروں کو متبادل جگہ کی فراہمی پر بھی کام ہورہا ہے ۔میئر نے کہا کہ لی مارکیٹ کے دکاندار تعاون کریں۔کے ایم سی کے کرایہ داروں کو اپنی روزی کمانے کے لئے قریب ترین متبادل جگہ دیں گے۔لی مارکیٹ کے اندر 231 دکانیں ہیں، جبکہ اس کے اطراف 702 دکانیں بنائی گئی ہیں۔یہ دکانیں نالوں اور لی مارکیٹ کی چاردیواری کے اندر ہیں۔سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق کسی کو بھی نالوں یا فٹ پاتھوں پر کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ، اس لئے آئندہ ان 933 دکانوں کو ہٹایا جائے گا۔