اسلام آباد/کراچی(نمائندہ امت /مانیٹرنگ ڈیسک) طالبان کو منانے کیلئے امریکی وفد نے اسلام آباد میں ڈیرہ ڈال دیا۔ افغانستان کیلئے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے جمعرات کو عسکری قیادت اور دفتر خارجہ کے حکام سے اہم مذاکرات کئے ،جن میں افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق امریکی وفد نے جدہ کے بعد قطر میں بھی طے شدہ ملاقاتوں کی منسوخی سے سبق سیکھتے ہوئے خواہش ظاہر کی ہے کہ ان کی افغان طالبان سے پاکستان میں ملاقات کرائی جائے۔ پاکستانی حکام نے جنگجوؤں تک یہ پیغام پہنچا دیا اور ان کے جواب کا انتظار ہے۔ اسی دوران افغان صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان سے فون پر رابطہ کرکے امن کوششوں میں ہونے والی اب تک کی پیشرفت پر اعتماد میں لیا ۔وزیراعظم نے افغان صدر کو یقین دہانی کرائی کہ افغان امن کے لئے حمایت جاری رہے گی۔اطلاعات کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کابل میں اہم ملاقاتوں کے بعد ایک روز تاخیر سے جمعرات کو اسلام آباد پہنچے ۔آمد کے فوری بعد انہوں نے دفتر خارجہ میں وفود کی سطح پر مذاکرات میں حصہ لیااور افغان حکام و طالبان سے اب تک ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔اس موقع پر افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سمیت پاک امریکا تعلقات اور بارڈرمینجمنٹ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے۔ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ افغانیوں کے درمیان باہمی مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ بعد ازاں زلمے خلیل زاد نے وفد کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ،جس میں ریزولیوٹ سپورٹ مشن (افغانستان میں تعینات امریکی افواج) کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی ملاقات میں شریک ہوئے،جب کہ امریکی صدر کی نائب معاون لیزا کرٹس اور پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ناظم الامور بھی موجود تھے ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ملاقات میں علاقائی سیکورٹی اورافغان امن ومفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔امریکی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن واستحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے اہم ہے۔ذرائع کےمطابق زلمے خلیل زاد نےامریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے انعقاد پر پاکستان کے کردار کو بھرپور انداز میں سراہا اور خواہش ظاہر کی کہ طالبان سے پاکستان میں ملاقات کرائی جائے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام نے جنگجوؤں تک پیغام پہنچا دیا ہے ،تاہم اس حوالے سے فوری طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں ،جب طالبان نے جدہ اور قطر میں مذاکرات سے انکار کردیا تھا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو قریب سے دیکھنے والے دوحہ میں طالبان دفتر کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اب مذاکرات میں امریکہ اور طالبان سے زیادہ دیگر ممالک کے مطالبات ہیں، جن میں سعودی عرب، ایران، قطر اور پاکستان شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایران اور قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات قطر کے خلاف ان مذاکرات میں اپنے اپنے ایجنڈے کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق زلمے خلیل زاد 21 جنوری تک بھارت، چین، افغانستان اور پاکستان کے دورے پر ہیں اور چاروں ممالک کے دورہ میں مسئلہ افغانستان کے سیاسی حل کے لیے سینئرحکام سے مشاورت کر رہے ہیں۔اس سے قبل گذشتہ سال دسمبر میں بھی زلمے خلیل زاد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا ،جس کے دوران انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے افغان مفاہمتی عمل اور طالبان کے ساتھ مذاکرات سے متعلق تبادلہ خیال کیا تھا۔یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھ کر طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے اور افغان امن عمل میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔دریں اثنا پاکستان نے افغان امن عمل میں بھارت کے کردار کو مسترد کردیا ہے۔ جمعرات کو پریس بریفنگ میں ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر فیصل نےکہا کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان مذاکرات میں مدد کی ہے ،کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ مسئلے کے حل کے لئے ضروری ہے۔ادھر کراچی میں تقریب سے خطاب کرتےہوئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کو فائدہ ہوگا، نیٹوکا پاکستان سےمتعلق مثبت رویہ دیکھنےمیں آیا، انھوں نے کہا کہ نیٹوممالک نےپاکستان کی قربانیوں کوسراہااور نیٹوکے 29 ممالک نےپاکستان سےمتعلق منفی بات نہیں کی،جنرل زبیرمحمود نے کہا کہ پاکستان نےعالمی امن کیلئےبڑی قیمت اداکی ہے اور اپنی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔