اسلام آباد(خصوصی رپورٹر)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حکومت اورمیڈیاکوخودکاراحتسابی نظام اپنانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاہے کہ میڈیا میں خود احتسابی اہم کردار ادا کر سکتی ہے،انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ملک جلد بحرانی کیفیت سے نکل آئے گا، معیشت مضبوط ہو گی تو اخبارات بھی مضبوط ہوں گے، میڈیا کو درپیش تمام مسائل حل کیے جائیں گے،صدرنے کہاکہ آزادی صحافت اہم ہے اسے ختم نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ جمعہ کے روز کونسل آف پاکستان نیوز پیپرایڈیٹرز (سی پی این ای) کے زیر اہتمام ’’میڈیا اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے پاکستان میڈیا کنونشن 2019 سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر پاکستان کے علاوہ وزیر اطلاعات ونشریات فوادچوہدری، خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی، صدر سی پی این ای عارف نظامی،سیکرٹری جنرل عبدالجبار خٹک، پی ٹی وی کے ایم ڈی ارشد خان،سینئر صحافیوں ظفر عباس، جاوید چوہدری، ایازخان، صلاح الدین مینگل، کاظم خان، اویس اسلم، مرتضی سولنگی، وسعت اللہ خان، امتنان شاہد،مسعودہاشمی ودیگر نے بھی کنونشن سے خطاب کیا۔اپنے خطاب میں صدر مملکت کا کہنا تھا کہ میڈیا نے جمہوریت کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے اور عوام کو آگاہی دی ہے۔ پہلے رسالے ہوتے تھے، اس کے بعد پی ٹی وی کا دور آیا اور آج پرائیویٹ چینلز آنے کے بعد اس میں مزید ترقی ہوئی۔ خبر کے ذرائع بڑھنے کی وجہ سے اخبارات پر دباؤ بڑھ گیا ہے، نئی نسل پرنٹ میڈیا کو کم دیکھتی ہے اور سوشل میڈیا پر انحصار کرتی ہے۔سوشل میڈیا کی آمد کے بعد پرنٹ میڈیا کو بھی میڈیا کی نئی جہت کو بروئے کار لانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پرنٹ میڈیا اشتہارات کے ساتھ حکومت پر بھی انحصار کرتا ہے، لیکن اب اخبارات کو خودمختار ہونا پڑے گا۔ ملک کی معیشت مضبوط ہو گی تو اخبارات بھی مضبوط ہوں گے۔میڈیا کی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہی معاشروں کو گمراہ کیا گیا، غلط معلومات فراہم کر کے مشرق وسطٰی میں بحران پیدا کر کے ملکوں کو تباہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کو تعصب سے بالا تر ہو کر اپنا کام کرنا چاہیے۔آج کے دور میں بہت زیادہ جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ملک میں معاشی بحران کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا کا انحصار بھی سرکاری اشتہارات پر ہے اور مجھے امید ہے کہ جلد ملک بحرانی کیفیت سے نکل آئے گا اور معیشت بہتر ہو گی تو میڈیا کو کمرشل اشتہارات بھی ملیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اطلاعات فواد چودھری میڈیا کے مسائل حل کریں گے۔ انہوں نے میڈیا سے صحت، خوراک کی کمی کے شکار لوگوں اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے آگاہی پھلانے میں تعاون بھی مانگا۔ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر سی پی این ای عارف نظامی نے کہاکہ میڈیا کی آزادی، اخلاقیات ریگولیشن پر آج بات ہورہی ہے۔ پریس کونسل آف پاکستان کا تجربہ اچھا نہیں رہا، اخبارات کی ترسیل پر چوکیدار بیٹھایا گیا اور کالم سنسر کئے گے اور یہ سب جمہوری ادوار میں کیاجارہاہے۔ جب پریس کونسل آف پاکستان بنائی گئی اس وقت مالکان کسی بھی قسم کی ریگولیشن کے خلاف تھے۔وزیر اطلاعات فواد چودھری میڈیا کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ ہمارا بزنس ماڈل درست نہیں، میڈیا میں تالا بندیاں ہو رہی ہیں اس کا حل نکالنا وزیر اطلاعات کا کام ہے چھوٹے اخبارات کا جینا دوبھر ہو گیا ہے وزیر اعظم کو مشیر ایسے مشورے دے رہے ہیں جس سے میڈیا کی مشکلات میں اور اضافہ ہور ہا ہے۔ ہم حق مانگتے ہیں مگر ہم سے بات نہیں کی جاتی۔ ہمیں قانون کے مطابق حقوق دیے جائیں میڈیا کے قانون کو زیادہ جمہوری بنایا جائے میڈیا کو جتنی آزادی دی جائے وہ بہتر ہو گا۔ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے ارکان خود مایوسی کا شکار ہیں، جب ملک میں سرمایہ کاری آئے گی تو حالات ٹھیک ہوں گے جیسی تسلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسد عمر نے اپنی تیاری مکمل نہیں کی تھی۔ آئی ایم ایف کے بارے میں حکومت واضح بتا دے کہ وہ پروگرام میں جا رہی ہے کہ نہیں، یہ غیر یقینی کی صورتحال معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔ عمران خان کو پارلیمان میں آنا چاہیے۔ اس سے ان کو ملک کی اصل صورتحال کا علم ہو گا، شیخ رشید کے قصیدوں سے کام نہیں چلے گا۔ ملک کی معیشت اچھی ہو گی تو میڈیا کی معیشت بھی اچھی ہو جائے گی۔ عبدالجبار خٹک نے اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا دباؤ کا شکار ہے اور معاشی دباؤبھی ہے آج زمینی حقائق دیکھنے کے بجائے پوائنٹ سکورنگ کی جاری ہے جس سے منفی اثرات پڑرہے ہیں، صحافیوں میں عدم اتفاق ہے اور وہ ایک دوسرے کو صحافی نہیں مانتے۔ میڈیا کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا اور ذرائع ابلاغ کا ادارہ بند ہونے سے جمہوریت کو نقصان ہوتاہے۔اپنے خطاب میں سینئر صحافی ظفر عباس نے کہاکہ میڈیا نے ہر دور میں دباؤبرداشت کیا ہے۔ سچائی اور اخلاقیات کے نام پر حکومت اور اس کے ادارے دباؤ ڈال رہے ہیں صحافی کو آزادی اور سچائی سے خبر بنانی چاہیے، کسی جماعت ادارے کا ترجمان بن کرخبر نہ دیں۔ خبر سے کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے اور صحافیوں کو بھی احتساب کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شکایت ہوتو اس کو دور کیا جائے۔ موجودہ ماحول صحافت اور معاشرے کو خراب کررہی ہے۔جھوٹی اور نفرت انگیز خبریں صحافت کو بدنام کر رہی ہیں اور انہیں روکنا بڑا چیلنج ہے۔ جب تک برداشت کامادہ نہیں پیدا ہوگا، یہ مسائل حل نہیں ہوگے۔ اس مقصد کے لیے ایڈیٹر کا ادارہ مضبوط کیا جائے۔ حکومت اور اداروں کے ساتھ اب بڑی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی دبائو ڈال رہے ہیں۔ صحافیوں کو صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جو بہت زیادہ خطرناک ہے۔ صلاح الدین مینگل نے کہاکہ صحافت کے حوالے سے ضابطہ اخلاق کے 17پوائنٹ ہیں، اگر اس پر عمل کیاجائے تو پاکستان خوبصورت ملک بن جائے گا۔ تمام شراکت دارون کو عتمادمیں لینے کے بعد ضابطہ اخلاق بنایاجائے گا۔ صحافی جاوید چوہدری نے کہاکہ پرنٹ میڈیا میں ضمیر اہم ہوتاتھا، اس لیے زیادہ قانون کی ضرورت نہیں تھی۔ اب ٹی وی طاقتوروں کا ہتھیار ہے، یہ طاقت سے چلتاہے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ یہ میڈیا پیسے سے چلتا ہے۔ فیس بک کو پیسے دیں اور وہ آپ کا پیغام دنیا تک پہنچا دے گا۔ بھارتی وزیراعظم مودی کی سیاست سوشل میڈیا پرہے مشرق وسطی میں بھی سوشل میڈیا نے اہم کردار ہے، معاشروں کی اقدارہوتی ہیں، مشینوں کی نہیں۔مشرف دور میں بڑے تاجروں نے حکومت سے رابطے اور کاروبار کی حفاظت کے لیے ٹی وی اور اخبار نکالے ، جس سے میڈیا میں نیا رجحان پیدا ہوا جہاں میڈیا کا مقصد معاشرے کی بہتری کی بجائے ذاتی مفادات کا تحفظ بن گیا، لیکن اب نیا کلچر سامنے آ رہا ہے جہاں میڈیا مالکان کنگ میکر بن رہے ہیں ، جس کے باعث اب جلد مالکان کے خلاف بھی کیس بننا شروع ہوں گے۔ ایاز خان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح حکومت کی جانب سے ہمیں صحافت بتائی اور سیکھائی جارہی ہے لگتاہے کہ ہمیں دوبارہ کلاسیں لینی پڑیں گی۔ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا ختم نہیں ہوگا۔صحافت کے آزادی مانگ رہے ہیں جو آئین نے ہمیں دی ہے ہم نے حدور سے تجاوز نہیں کیا ،جولکھتے تھے وہی لکھیں گے۔ضیاء الدین نے کہاکہ صحافت عوام کی خدمت کا نام ہے۔ صحافت میں سب سے مشکل کام اخلاقیات کا خیال رکھنا ہے۔ پی ٹی وی عوام کی خدمت کرنے والی انڈسٹری بن سکتی ہے،صحافی اویس کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ سچ کہنے کا حلف صحافیوں کواٹھانا چاہیے اس سے صحافیوں اور معاشرے کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ سینئر صحافی وسعت اللہ خان نے کہاکہ کیا ہمیں دشمن اوراتحادی کا پتہ ہے اور کس سے حق مانگ رہے ہیں۔تنظیموں کا کام ہرصورت مفاد کا تحفظ کرناہے۔ لالچ نے میڈیا کے اندر تمام ادارے تباہ کر دیے ہیں۔ ہمارا میڈیا طالب علیم، نوجوانوں اور بچوں کے لیے کچھ نہیں دے رہا، جس کے باعث ان کی توجہ سوشل میڈیا کی جانب مبذول ہو رہی ہے۔ اس سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سات بزرگ صحافیوں کو سی پی این ای کی طر ف سے لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دئیے، جبکہ صدر سی پی این ای عارف نظامی نے بھی صدر مملکت عارف علوی، فواد چوہدری اور دیگر مہمانوں کو اعزازی شیلڈز دیں۔