میئر نے تجاوزات آپریشن کی آڑ میں 50 برس پرانی مسجد شہید کرادی

کراچی (رپورٹ: عظمت علی رحمانی)میئر کراچی وسیم اختر نے تجاوزات آپریشن کی آڑ میں 50 برس پرانی مسجد شہید کرادی۔ نوٹس دیئے بغیر ہل پارک کی مسجد راہ نما پر بلڈوزر چلوا دئیے۔قرآن کریم کے نسخے نکالنے کی مہلت تک نہ دی گئی۔بے حرمتی پر اہل علاقہ میں اشتعال پایا جاتا ہے۔مسجد شہید ہونے کے بعد لوگوں نےملبے کے قریب صفیں بچھا کرعصر سے عشا تک نمازوں کی ادائیگی کی ۔ علما کا کہنا ہے کہ مسجد کی زمین جب ایک مرتبہ وقف ہو جائے تو وہ کسی کی ملکیت نہیں رہتی۔وہ تاقیامت مسجد ہی شمار ہو گی۔اسلئے مساجدکو تجاوزات قرار دے کر گرانا کسی مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا۔ تفصیلات کے مطابق میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے جمعہ کو ہل پارک میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران وہاں 50برس سے قائم مسجد راہ نما کو بھی شہید کردیا گیا۔ آپریشن میں گرائے جانے ریستورانوں کو ایک ہفتے قبل نوٹس جاری کئے گئے تھے ،تاہم پارک میں آنیوالوں کے لئے قائم مسجد پربغیر نوٹس بلڈوزر چلا دئیے گئے۔ کے ایم سی عملے نے مسجد سے قرآن کریم کے نسخے،دریاں ،چٹائیاں اوردیگر سامان نکالنے تک کی مہلت نہیں دی۔ بے حرمتی پر اہل علاقہ میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ گزشتہ روزمسجد میں نماز ظہر امام مسجد مولانا عبداللہ نے پڑھائی ،جس کے بعد وہ باہر نکلے ہوئے تھے کہ مسجد کو شہید کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔اس پر امام مسجد نے مداخلت کی تو ا نہیں اعلی افسران کی جانب سے دھمکی دی گئی کہ اگر آپ آگے بڑھے تو گرفتار کرلیا جائے گا۔مذکورہ مسجد ہل پارک کے پارکنگ کے ساتھ قائم تھی ،جو تقریبا 50برس پرانی بتائی جاتی ہے ،اس مسجد کے اندر 5صفیں بنتی تھیں اور باہر بھی 10کے لگ بھگ صفیں بنتی تھیں ،مسجد میں خواتین کے علیحدہ جگہ بنائی گئی تھی ،جبکہ کچھ عرصہ قبل سی پی ایل سی کے خلیق الرحمن نے مسجد کی تزئین آرائش اور پانی سمیت وضو خانے کا انتظام کرایا تھا ، پانچوں نمازوں میں نمازیوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی ،جبکہ اس مسجد میں 28برس سے نماز تراویخ بھی پڑھائی جاتی تھی ،ہل پارک کراچی کےبڑے پارکوں میں شمار ہوتا ہے ،جہاں عوام کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، پارک میں صبح سویرے پی ای سی ای ایچ ایس کے مکین واک کرتے ہیں ،پارک میں لوگ سیر و تفریح کے علاوہ کالے و پیلے یرقان کا دم کرانےبھی یومیہ آتے ہیں ، اس کے علاوہ شام کو ریستورانوں میں کھانا کھانے والوں کا بھی رش رہتاہے ، جس کی وجہ سے ہل پارک کی مسجد میں مر د وخواتین حضرات نماز کے لئے لازمی جاتے ہیں۔عموما اس مسجد میں نمازیوں کی تعداد2سے 3صفیں ہوتی ہے ،جبکہ ہفتہ اور اتوار کو مسجد کا اندرونی حصہ بھرجاتا ہے ،جس کے بعد صفیں باہر بچھائی جاتی ہیں ،مسجد کے اندر پنکھے ،کولر ،ٹوپیاں ،جائے نماز سمیت اشیا بھی موجود ہیں ،تاہم میئر کی ٹیم کی جانب سے کوئی بھی چیز نکالنے نہیں دی گئی ،جس کی وجہ سے تمام چیزیں اندر ہی رہ گئیں تھیں اور مسجد کو شہید کردیا گیاہے ،مزکور ہ مسجد کسی بھی پرائیویٹ شخص کی ملکیتی زمین کے بجائے سرکار کی زمین پر قائم تھی۔قانونی طورپر حکومت کسی بھی پبلک کی آمد و رفت کی جگہ پر مسجد بنانے کی پابند ہے ،اسی قانون کے تحت سرائے،بس ،ٹرین اسٹیشنوں و ہوائی اڈوں کے علاوہ مین شاہراہ پر واقع پڑول پمپس پر مسجد لازمی بنوائی جاتی ہے ،تاہم وسیع و عریض پارک میں قائم مسجد کو شہید کیا گیا۔ اس حوالے سے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے فاضل و راہ نما مسجد ہل پارک کے امام مسجد مولانا عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 28برس سے یہاں کے امام ہیں ،وہ جب سے اس مسجد میں آ ئے ہیں، عوام کے رش کی وجہ سے وقتا فوقتا کام وغیرہ کراتے رہتے ہیں ،جس میں اہل محلہ تعاون کرتے ہیں۔انہوں نے مسجد شہید کئے جانے کے دوران کے ایم سی انتظامیہ سے بار بار درخواست کی کہ مسجد اللہ کا گھرہے اور یہ جگہ ویسے بھی پارکنگ ایریا کے ساتھ ہے۔ یہ ہوٹلز ،پارکنگ ایریا وغیرہ خود کے ایم سی نے بنایا ہے ،مہربانی کریں مسجد کو شہید نہ کیا جائے ،تاہم افسران نے ان سے کہا کہ یہاں سے ہٹ جاؤ ،ورنہ گرفتار کرکے جیل بھیجوا دیں گے۔مولانا عبداللہ نے بتایاہم نے مسجد کے ملبے سے قرآن کریم کے کچھ نسخے نکالے ہیں ،جب کہ بعض اب بھی اندر ہیں ،جن کو کل ملبہ ہٹا کر نکالیں گے۔انہوں نے کہامسجد شہید کئے جانے کے باوجود نمازوں کے وقت یہاں لوگوں کی بڑی تعداد پہنچی ،جس کی وجہ سے ملبے کے قریب ہم نے چٹائی ڈال کر عصر اور مغرب کی نماز پڑھائی ہے ۔دریں اثنا ناظم اعلیٰ جمعیت اتحاد العلما کراچی و مدیر جامعۃ الاخوان کراچی مولانا عبدالوحید نے ’’امت ‘‘سے گفتگو میں کہا کہ مسجد کی زمین جب ایک مرتبہ وقف ہو جائے تو وہ کسی کی ملکیت نہیں رہتی۔ وقف کرنے والا خود بھی اسے کسی اور مصرف میں استعمال نہیں کر سکتا، وہ تا قیامت مسجد ہی شمار ہو گی۔یہی شریعت میں اوقاف کا حکم ہے۔ اسلئے مساجدکو تجاوزات قرار دے کر گرانا کسی مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا۔ اگر زمین واقعی سرکار کی ہے تو سرکاری اداروں کو ایسی جگہ مسجد بنانے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہئے تھی ،مگر مسجد بننے اور پانچوں نمازوں سمیت جمعہ کا سلسلہ بھی شروع ہونے کے بعد اسے کسی صورت نہیں گرایا جاسکتا۔خدا نے مساجد کی تعمیر کو اہل ایمان کی اور ان کی تخریب کو کفار کی علامت قرار دیاہے۔ باقی ہماری حکومت ریاست مدینہ کا نام لے کر جس روش پر چل نکلی ہے ،اس کے آثار بہت خطرناک نظر آ رہے ہیں۔علاوہ ازیں مسجد شہید کئے جانے کی اطلاع ملنے پر پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی بلال غفار ہل پارک پہنچ گئے۔انہوں نےانسداد تجاوزات آپریشن کی آڑ میں مسجد شہید کئے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ علاقہ مکینوں اور عوام کے احتجاج کے باوجود کے ایم سی نے کارروائی کی۔ بلال غفار کے مطابق اگر مسجد غلط جگہ پر تعمیر تھی تو سوال یہ ہے کہ اسے حکومتی اداروں نے تعمیر کیوں کرنے دیا۔انہوں نے کہا کہ شہید کی جانے والی مسجد کے ملبے تلے قرآنی اوراق اور دینی کتابیں ہیں جن کی بے حرمتی ہورہی ہے۔ بلال غفار نے سوال کیا کہ انسداد تجاوزات ٹیم نے مسجد شہید کرنے سے پہلے قرآن پاک اور دینی کتابیں تحویل میں کیوں نہیں لیں۔سپریم کورٹ کا آرڈر کہیں نہیں کہتا کہ آپریشن کی آڑ میں عبادت گاہوں اور دینی کتابوں کی بے حرمتی کی جائے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملبے تلے دبی دینی کتابیں اور قرآنی اوراق کو محفوظ کرنے کے لئے فوری طور پر ملبہ اٹھایا جائے۔حکام بالا سے درخواست ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران سے جواب طلب کیا جائے۔

Comments (0)
Add Comment