منبج/انقرہ(امت نیوز)شام کے2 صوبوں دیرالزور اور ادلب میں فضائی حملوں کے دوران کم ازکم 31 شامی شہری شہید ہوگئے۔ اسی دوران گزشتہ دنوں شام میں مارے گئے 4 امریکیوں کی شناخت انٹیلی جنس اہلکاروں کی حیثیت سے ہوگئی ، جو اہم مشن پر منبج میں موجود تھے۔ شام کی خبر رساں ایجنسی سانا کی رپورٹ کے مطابق دیر الزور میں امریکی اتحاد کے جنگی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں 20 افراد جاں بحق ہوئے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ الباغور تحتانی قصبہ پر فضائی حملے کا نشانہ بننے والوں میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔ادھر شمال مغربی شہر ادلب میں بمباری سے 11 افراد ہلاک ہوگئے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بمباری میں القاعدہ سے منسلک گروہ حیات التحریر الشام کے اسلحہ ڈپو کو نشانہ بنایا گیا جب کہ مرنے والوں میں حیات التحریر الشام کے 7 جنگجو اور 4 شہری بھی مارے گئے۔شامی امدادی تنظیم کے سربراہ رامی عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ ابتدائی معلومات سے یہ کار بم حملہ تھا۔دریں اثنا شمالی شام کے جنگ زدہ علاقے منبج میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والے امریکیوں کی شناخت ہوگئی ہے۔ سی این این کے مطابق چاروں انٹیلی جنس اہلکار تھے اور اہم مشن پر شام میں موجود تھے۔ہلاک ہونے والوں میں 1 امریکی نیوی، 1 امریکی آرمی، 1 مترجم اور چوتھے شخص کی شناخت بطور کنٹریکٹر ہوئی ہے تاہم چوتھے شخص کے نام اور عہدے کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔امریکی فوج کے اعلیٰ حکام نے بتایا کہ انٹیلی جنس اہلکاروں کی منبج میں موجودگی اور خفیہ مشن سے متعلق معلومات جمع کی جا رہی ہیں جس کے بعد حتمی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ امریکی فوج کے اہلکاروں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجی دستوں کی واپسی کا اعلان کیا ہے۔اسی دوران شام سے انخلا رکوانے کیلئے سرگرم سینیٹرلنڈسے گراہم نے انقرہ میں صدر رجب طیب اردوغان، وزیر خارجہ میولود چاوش اولو اور وزیر دفاع خلوصی آقار سے ملاقاتیں کیں۔ بعد ازاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ شام میں امریکی حمایت یافتہ ملیشیا وائی پی جی دہشت گرد کرد تنظیم پی کے کے ہی ایک شاخ ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ میں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اوباما کی غلطی کو نہ دہرانے اور بلا کسی تدبیر کے انخلاء نہ کرنے کے معاملے پر خبردار کیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے انقرہ میں صدر رجب طیب ایردوان، وزیر خارجہ میولود چاوش اولو اور وزیر دفاع خلوصی آقار سے ملاقات کے بعد پریس کانفرس کرتے ہوئے کیا۔سینیٹر گراہم نے مزید کہا کہ ہمیں ترکی کا تحفظ اور شام میں ترکی کے لیے منظر عام پر آنے والے وائے پی جی کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ اوباما نے وائے پی جی کو مسلح بناتے ہوئے ترکی کو ایک ڈراؤنے خواب کی جانب دھکیلا تھا، لہذاہمیں انخلاء کے عمل میں بڑی احتیاط برتنی ہو گی اور یہ مسئلہ ترکی کے سر پر نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ یہ عمل دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک نئی جنگ چھڑنے کی راہ ہموار کرے گا۔خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوجی انخلا کے اعلان کے بعد ترکی نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کی سربراہی کا اعلان کیا تھا۔