ساہیوال (مانیٹرنگ ڈیسک) سی ٹی ڈی کی جانب سے شہریوں کے قتل کامعاملہ ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے بیان سے مزید متنازع ہوگیا۔پولیس کے اپنے بیانات نے پہلے ہی مشکوک کردیا تھا ۔ ڈپٹی کمشنر ساہیوال زمان وٹو نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے مارے جانے والے کار سواروں کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی ۔ادھرنجی ٹی وی کے مطابق سی ٹی ڈی حکام کے بدلتے بیانات نے بھی معاملہ مشکوک بنا دیا، کئی سوالات اٹھ گئے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر گاڑی رک گئی تھی تو اندھا دھند گولیاں کیوں برسائی گئیں؟بڑی کارروائی کا دعویٰ تو کیا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اہلکار لاشیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ کیا سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کرائم سین کو محفوظ کیا؟اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا سی ٹی ڈی نے مارے جانے والے افراد سے متعلق مکمل معلومات لی تھیں؟ کیا مقصد صرف کار سواروں کی جان لینا تھا؟ گاڑی میں موجود معصوم بچوں اور خواتین کا خیال کیوں نہ کیا گیا؟ کیا جاں بحق ہونے والی 13 سالہ اریبہ بھی دہشتگرد تھی؟سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کار سواروں کو حراست میں کیوں نہ لیا؟۔خیال رہے کہ سی ٹی ڈی اور پولیس کی جانب سے مقابلے کے حوالے سے ایک موقف یہ آیا کہ مقابلے میں مارے جانے والے افراد اغوا کار تھے جنہوں نے تین بچوں کو اغوا کیا تھا۔ ایک اور بیان میں موقف اپنایا گیا کہ مارے جانے والے افراد عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کے کارندے تھے جنہوں نے سی ٹی ڈی پر فائرنگ کی اور جوابی کارروائی میں مارے گئے۔