کراچی (اسٹاف رپورٹر) میئر کراچی وسیم اختر انسداد تجاوزات مہم کی آڑ میں ہل پارک میں شہید کی گئی مسجد کا نشان مٹانے پر تل گئے۔ شعبہ پارکس عملے کے ذریعے چٹائیاں تک اٹھوا لیں، تاکہ لوگ نماز ہی نہ پڑھ سکیں۔ نماز عشا ننگے فرش پر ادا کی گئی۔ واضح رہے کہ مسجد راہ نما میں توسیع سابق ناظم نعمت اللہ نے کرائی تھی۔ مشتعل علاقہ مکینوں نے سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل کردی، جبکہ شہری و سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شہید کی جانے والی مسجد اسی مقام پر ازسرنو تعمیر کی جائے اور ضبط کی گئی تمام املاک فوری طور پر مسجد انتظامیہ کے حوالے کی جائیں، بصورت دیگر شدید احتجاج کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق ہل پارک میں آنے والے افراد اور اہل علاقہ میں میئر کراچی وسیم اختر کے خلاف شدید اشتعال پایا جا رہا ہے۔ مسجد رہ نما میں گزشتہ روز علمائے کرام سمیت قرب و جوار کے مدارس کے طلبہ کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ علمائے کرام اور طلبہ نے وہیں پر نماز ادا کی اور مطالبہ کیا کہ میئر کراچی سرعام معافی مانگیں اور سرکاری خرچ پر دوبارہ مسجد بنوائیں۔ نماز مغرب ادا کرنے والے نمازیوں آصف ودیگر نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد 50 سال سے اس مقام پر قائم تھی اور اس کی وجہ سے پارک میں تفریح کی غرض سے آنے والے افراد کسی پریشانی کا شکار ہوئے بغیر بآسانی اپنی نماز ادا کرتے تھے۔ مسجد کے امام مولانا قاری عبداللہ نے بتایا کہ وہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے 1993 میں فراغت کے بعد مسجد میں بطور خطیب مقرر ہوئے، اس وقت یہ بہت چھوٹی بنی ہوئی تھی اور سیمنٹ کی چادریں تھیں، 2004 میں جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی محمد حسین محنتی یہاں آئے، انہوں نے ناظم کراچی نعمت اللہ خان کو فون کیا کہ یہاں چھت ڈالنی ہے، جس کے بعد یوسی ناظم زاہد سعید کی کاوشوں سے اس مسجد کی توسیع کی گئی۔ بعد ازاں دیگر مخیر حضرات نے بھی تعاون کیا۔ یہاں یومیہ سیکروں افراد جو ہل پارک آتے تھے، وہ یہیں سے وضو کرتے تھے اور مسجد میں نماز کی ادائیگی کرتے تھے۔ انہدامی کارروائی کے باوجود گزشتہ روز یہاں دوبارہ نمازیوں کی صفیں بنائیں، جس کے بعد سابق ڈائریکٹر پارک ریٹائرڈ لیاقت نے ڈی ایم سی اہلکاروں کے ساتھ مل کر مسجد کی صفیں اور دریاں بھی اٹھا لیں ہیں۔ لیبر انچارج مجاہد نے دریافت کرنے پر ڈپٹی ڈائریکٹر پارک شاہد کے پاس بھیجا، انہوں نے مجبوری ظاہر کی اور بتایا کہ ہمیں وسیم اختر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ‘‘اس کا نشان مٹادو’’ تاکہ یہاں نمازیوں کی آمد ہی نہ رہے، جس کے بعد ہم نے ننگے فرش پر نماز عشا پڑھائی ہے۔ مولانا قاری عبداللہ نے مزید کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ رات ہی رات اس مسجد کا ملبہ اٹھا کر جگہ کو صاف کردیا جائے گا، تاکہ لوگ یہاں نماز کے لئے ہی نہ آسکیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز علمائے کرام اور دیگر افراد کی آمد کا سلسلہ جاری رہا، یوسی چیئرمین ولید اور جیند مکاتی کی طرف سے سہیل نامی شخص کو بھیجا گیا کہ جائزہ لیں، تاکہ اس پر کام کیا جائے۔ معلوم رہے کہ اس مسجد کے واش روم کل8 تھے، جن میں 4خواتین اور 4مردوں کے لئے تھے۔ وضو خانہ میں بیک وقت 12 افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی، مسجد کے لئے زیر زمین 4 ہزار گیلن کا زیر زمین ٹینک بنا ہوا تھا، جبکہ موٹر کے ذریعے ٹینک کا پانی اوپر والی ٹینکی میں بھیجا جاتا تھا، تاہم زیر زمین اور اوپر والی ٹینکی بھی مسمار کر دی گئی ہیں۔ اس حوالے سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی برائے خواتین کے شیخ الحدیث مولانا علامہ مفتی محمد عبداللہ نورانی کا کہنا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مسجد ویران کرنے والوں کو ظالم قرار دیا ہے، کسی کی ذاتی جگہ چھوڑ کر روئے زمین پر کسی بھی جگہ و مقام پر مسجد قائم ہو جائے، اس کے بعد اسے منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور اگر ضرورت کی بنا پر غیر مملوکہ عام جگہ پر بھی مسجد قائم کردی جائے تو اس کو بھی منہدم کرنا درست نہیں ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ‘‘اور تمام روئے زمین کو میرے لئے مسجد (سجدہ گاہ) بنا دیا گیا ہے’’۔ ہانگ کانگ اسلامک سینٹر کولون کے امام و خطیب مولانا مفتی محمد شعیب کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ اسلامی ممالک دیگر عوامی ضروریات کے ساتھ ساتھ مساجد کا قیام بھی کرتی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتی ہیں۔ عرب ممالک، ملائیشیا اور انڈونیشیا اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ مفتی محمد شیعب کے مطابق بیرون ممالک میں بیٹھ کر ہمیں پاکستان میں مسجد کے شہید ہونے کی خبر بڑی رنجیدہ کرتی ہے، اچھا ہوتا کہ حکومت اس جگہ کو مسجد کے لئے دے دیتی یا مسجد کو اوقاف میں لے لیتی اور اس کو ریگولرائز کر لیتی، مگر اسلامی ملک کی اس سے بدنامی ہوئی ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ اس مسجد کو دوبارہ سرکاری خرچ پر بنایا جائے۔ ینگ علمائے کونسل کے مفتی نسیم ثاقب کا کہنا ہے کہ ہم حکومت سندھ کے مشیر اوقاف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ وسیم اختر کی اس ظالمانہ کارروائی کا نوٹس لیں، بصورت دیگر ہم بھر پور احتجاج کریں گے اور دوبارہ اسی جگہ پر مسجد بنائیں گے۔