ڈاکٹروں – ادویات نمائندہ گٹھ جوڑ سے مریض متاثر ہونے لگے

کراچی (رپورٹ:صفدر بٹ) سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ اوپی ڈیز کے اوقات میں قومی و بین الاقوامی ادویہ ساز اداروں کے نمائندوں (میڈیکل ریپز) اور ڈاکٹروں کے گٹھ جوڑ سے مریض متاثر ہونے لگے۔ محکمہ صحت سندھ کی جانب سے 2016 میں صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں میں ادویہ ساز اداروں کے نمائندوں ( میڈیکل ریپز ) پر او پی ڈیز کے اوقات کار میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی جس پر ابتدائی ایام میں کچھ عملدر آمد بھی دیکھنے میں آیا۔ اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے او پی ڈیز کے ڈاکٹروں کی موثر مانیٹرنگ نہ ہونے کے باعث قومی و بین الاقوامی ادویہ ساز اداروں کے نمائندوں اور ڈاکٹروں کے گٹھ جوڑ ہونے سے طبی اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے محکمہ صحت کی جانب سے پابندی کے حکم پر عملدر آمد مزاق بن کر رہ گیا ہے اور اس سارے عمل میں او پی ڈیز کے انچارجز برابر کے شریک ہیں اور اسپتالوں کی انتظامیہ نے بھی اس اہم معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ سول ، جناح اور عباسی سمیت شہر کے دیگر اسپتالوں کی او پی ڈی کھلنے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی جب ابھی ڈاکٹروں نے چند مریضوں کا طبی معائنہ کیا ہوتا ہے میڈیکل ریپز ٹولیوں کی شکل میں آجاتے ہیں اور اپنی کمپنی کی پراڈکٹس کا تعارف کرانا شروع کردیتے ہیں ، او پی ڈیز میں کچھ ڈاکٹرز ایسے بھی ہیں جو محکمہ صحت کے حکم نامے کی پابندی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے عملے کو تاکید کر رکھی ہے کہ ان کے کمرے میں پابندی کے اوقات میں میڈیکل ریپز کو داخل نہ ہونے دیا جائے تاہم ڈاکٹروں کی اکثریت اس کے برعکس میڈیکل ریپز سے اپنے معاملات طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جتنی دیر تک ادویہ سازکمپنیوں کے نمائندے ڈاکٹرز کے روم میں موجود رہتے ہیں مریض اپنی باری کے منتظر رہتے ہیں یا پھر ان کے علاج میں خلل واقع ہو رہا ہوتا ہے۔اگر کسی مریض کے اہل خانہ کی جانب سے اعتراض اٹھایا جائے تو مریض کے ساتھ انتہائی غیر مہذب رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس کے باعث مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ز کی توجہ مریض پر کم اور میڈیکل ریپز پر زیادہ ہوتی ہے کیونکہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے من پسند و مخصوص ادویات تجویز کرنے کا ٹارگٹ پورا کرنے کے عوض ڈاکٹروں کو دیئے جانے والے مختلف اقسام کے تحفے ، فائیو اسٹارز ہوٹلز میں لنچ و ڈنر کے علاوہ سال میں زیادہ بزنس یعنی زیادہ سے زیادہ مریضوں کو ادویات تجویز کرنے والے جنرل پریکٹیشنر ز کو فارما سیوٹیکل کمپنیاں لاکھوں روپے نقد کمیشن اور بیرون ممالک کے ٹوورز بھی لگواتی ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ او پی ڈیز میں بیٹھنے والے ڈاکٹر ز سرکاری اوقات میں پابندی ہونے کے باوجود میڈیکل ریپز سے ادویات کے مختلف سیمپلز اور ان کی افادیت پر گفتگو کرتے ہیں تاہم یہی ڈاکٹرز اور کنسلٹنٹ اپنی پرائیویٹ پریکٹس کے دوران کسی بھی میڈیکل ریپز سے ملاقات کو گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں اور محکمہ صحت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی کے حکم پر اپنی پرائیویٹ پریکٹس کے اوقات میں عمل کرتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment