لاشیں گھر پہنچنے پر کہرام – پولیس گردی کیخلاف 12 گھنٹے دھرنا

لاہور(نمائندہ خصوصی) سانحہ ساہیوال پرپولیس کےخلاف عوام سراپااحتجاج بن گئے، لاشیں گھر پہنچنے پر کہرام مچ گیا۔لاہورمیں مشتعل مظاہرین اہلکاروں پر چڑھ دوڑے ،پشاوراورسکھرمیں بھی مظاہرے ہوئے،صوبائی دارالحکومت میں میٹروبس معطل اورکئی سڑکیں بندرہیں،جنازے پربھی نعرے بازی کی گئی،مقتول ذیشان کے اہلخانہ نے 12گھنٹے تک دھرنادیا،جوشفاف تحقیقات کی یقین دہانی پرختم کیاگیا ۔ تمام مقتولین کی تدفین کردی گئی ہے۔تفصلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کے مقتولین کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپردخاک کردیاگیا۔ نماز جنازہ سے قبل دن بھر شہریوں اور متاثرہ خاندان کے افراد نے فیروز پور روڈ پر احتجاج کیا ۔صبح 8 بجے شروع ہونے والے اس احتجاج کی وجہ سے لاہور کی انتظامیہ کو میٹرو بس کی سروس بھی جزوی طور پر بند کرنا پڑگئی۔ شاہدرہ سے چلنے والی میٹرو بسیں قذافی اسٹیڈیم سے واپس مڑتی رہیں ،جبکہ 50 سے زائد بسیں گجوستہ میں بلاک ہوتی رہیں اور روڈ پر نہ آسکیں۔ مظاہرین صبح سویرے 8 بجے سے ہی چورنگی امر سدھ کے قریب شنگھائی پل کے آس پاس احتجاج کیلئے جمع ہوگئے تھے اور انہوں نے لاہور سے قصور کے درمیان جانے والی سڑک کو بھی مکمل بند کردیا تھا۔ تاہم شاہدرہ کے قریب لاہور سے قصور جانے والی ٹریفک کھل گئی۔البتہ قصور سے لاہور آنے والی ٹریفک شام کے بعد بھی بند رہی کیوں کہ مظاہرین سارا دن سڑکوں پر موجود تھے اور پولیس کیخلاف سخت غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے۔ اس وجہ سے میٹرو بس کا قذافی اسٹیڈیم سے گجوستہ تک روٹ سارا دن معطل رہا۔ ساہیوال میں سانحہ کے مقتولین کے حوالے سے تھانہ یوسف والا میں ایف آئی آر کے اندراج اور مقتولین کے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی لاشیں لاہور روانہ کردی گئی تھیں جو دن کے وقت کوٹ لکھپت کے محلہ طارق آباد میں ان کی رہائش پر پہنچادی گئیں۔ اس دوران کہرام کا منظر تھا جبکہ مظاہرین میں بھی پہلے سے زیادہ اشتعال اور غم و غصہ دیکھا گیا۔ اس دوران پولیس اہلکاروں کے ساتھ بھی مظاہرین نے سختی کا معاملہ کیا اور پولیس اہلکاروں کو اپنی گاڑی بھگاکر موقع سے بھاگنا پڑا۔ اس دھکم پیل اور ہاتھا پائی کے دوران پولیس اہلکاروں کو مکوں اور گھونسوں کا بھی مبینہ طور پر سامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں مقتولین کی لاشیں گھر میں پہنچانے کے بعد مقتولین کے بعض رشتہ داروں نے مبینہ طور پر پولیس کے دباؤ پر جلدی تدفین کیلئے اصرار کیا اور لاشوں کو اٹھا کر جنازہ کیلئے بھی لے جانے کی کوشش کی۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد لاشوں کو دوبارہ گھر لے جایا گیا۔شام کے وقت مقتولین کے گھر کے باہر سیکڑوں لوگ جمع ہوچکے تھے۔ جنازہ اٹھا تو سخت المناک ماحول تھا جبکہ پولیس کیخلاف بھی نعرے بازی ہوتی رہی۔ نماز عشا کے بعد مقتولین کی میتوں کو طارق آباد سے جنازہ گاہ لایا گیا جہاں ان کی نماز جنازہ فیروزپور روڈ پر سنگھائی پل کے نزدیک ادا کی گئی۔ سخت سردی کے باوجود جنازے میں شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ادھر ذیشان کے اہلخانہ نے نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد فیروز پور روڈ پر 12 گھنٹے تک دھرنا دیا جو بعد ازاں واقعہ کی شفاف تحقیقات کی یقین دہانی پر ختم کر دیا گیا۔قبل ازیں ورثا کا کہنا تھا کہ ذیشان کو دہشت گرد قرار دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا گیا، انصاف ملنے تک تدفین نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ذیشان پر عائد کیا گیا دہشت گردی کا الزام واپس لیا جائے اور صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت فوری استعفیٰ دیں۔ ورثا نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان واقعہ کا از خود نوٹس لیں۔دریں اثنا انتظامیہ نے مقتول کے بھائی سے مذاکرات کئے جن میں سانحہ ساہیوال کی شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد مظاہرین پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔ذیشان کے بھائی نے اس موقع پر کہا کہ پولیس حکام نے شفاف تحقیقات کرنے کا یقین دلایا ہے ، اس لئے اب اپنے بھائی کی تدفین کرنا چاہتا ہوں۔ادھر نجی ٹی وی کے مطابق ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے ذیشان کا اپنا مکان تھا۔ اس نے آئی سی ایس کمپیوٹر سائنس کر رکھا تھا اور کمپیوٹر کا کاروبار کرتا تھا،وہ جمعیت اہل حدیث یوتھ ونگ کا رکن تھا۔ذرائع کے مطابق ذیشان کا بھائی احتشام ڈولفن فورس کا اہلکار تھا جس کا ضمانتی ذیشان تھا۔جمعیت اہل حدیث کے رہنما ہشام الٰہی ظہیر تعزیت کے لیے مقتول ذیشان کے گھر گئے جہاں انہوں نے ان کے اہلخانہ اظہار افسوس کیا۔ لاہور کے علاوہ مختلف شہروں میں ساہیوال واقعہ پر شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پشاور میں شہریوں نے پریس کلب کے باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ساہیوال واقعہ درندگی کی بدترین مثال ہے، ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے۔ مظاہرے میں شامل بچے بھی واقعہ پر افسوس اور غم کا اظہار کرتے نظر آئے۔سکھر میں شہریوں نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس نےبربریت کی انتہا کر دی، معصوم بچوں کے سامنے والدین کو گولیاں ماریں گئیں۔ نئے پاکستان میں پولیس کا ظلم دیکھ کر یقین ہو گیا کہ تبدیلی آ چکی ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہر ادارے کو اپنی حدود اور قوانین کا پاس رکھنا چاہے۔

Comments (0)
Add Comment