اسلام آباد(نمائندہ امت) ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے ایک برس کے دوران تقریباً ساڑھے 6ہزار نئی ادویات کی منظوری دی ہے، جبکہ 215 نئی دوا ساز کمپنیوں کو لائسنس بھی جاری کیے ، ملک بھر میں 24ہزار چھاپوں کے دوران ڈریپ ایکٹ 2012 کی خلاف ورزیوں کے تقریباً ساڑھے 3ہزار کیس رپورٹ کیے۔ ترجمان ڈریپ نے اتوار کے روز ڈریپ کی سال 2018کی کارکردگی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ڈریپ کے کوالٹی اشورنس ڈویژن نے 2018کے دوران مختلف خلاف ورزیوں پر 5دوا ساز کمپنیوں اور 25فیکٹریوں کے لائسنس معطل کیے۔ اس عرصے کے دوران وفاقی دارالحکومت میں جعلی ادویات کے کاروبار میں ملوث میسرز ایورسٹ فارما اسلام آباد کے خلاف 172کیسوں میں ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دی گئی، جن میں سے 72کیسوں میں ایف آئی آرز درج کی جا چکی ہیں۔ ترجمان ڈریپ کے مطابق کسٹم حکام نے میسرز ایورسٹ فارما کی خام مال کی درآمد سے متعلقہ 40رسیدیں پیش کی جن کا بغور جائزہ لینے پر 39غیر قانونی پائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈریپ کے لائسنسنگ ڈویژن نے 2018ء میں 22نئے مینو فیکچرنگ لائسنسز کا اجراءکیا، 113نئے اضافی سیکشن لگانے کی اجازت دی گئی، 94کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید کی گئی، جبکہ 87نئی کمپنیوں کے لیے تجویز کردہ جگہ کی منظوری دی گئی اور 130کمپنیوں کے مجوزہ نقشہ جات پاس کیے۔ڈریپ کے رجسٹریشن بورڈ نے6ہزار 440ادویات کی درخواستوں کی منظوری دی، جبکہ 200ایسی درخواستوں کو مسترد کیا گیا جو کہ ڈریپ کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ ہیلتھ اینڈاو ٹی سی ڈویژن نے عرصہ سے التوا کا شکار درخواستوں کو نمٹایا اور ایک سال کے دوران 6882 درخواستوں پر کاروائی کی گئی، جن میں سے4ہزار 139 درخواستوں کی منظوری دی گئی۔291کمپنیوں کی درخواستوں پر کاروائی کرتے ہوئے 215کو قواعد کے مطابق منظوری دی گئی۔ میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017کا نوٹیکفیشن کیا گیا تا کہ تمام میڈیکل ڈیوائسز کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کارڈیک سٹنٹس کے لیے آن لائن نیشنل رجسٹری کا آغاز کیا گیا۔ایم ڈی ایم سی ڈویژن اب تک 294اسٹیبلشمنٹ لائسنس برائے درآمد، 6برائے مینو فیکچرر، 53امپورٹ رجسٹریشن اور 46لوکل مینو فیکچر کی رجسٹریشن جاری کر چکا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لائسنس مینو فیکچرز جی ایم پی کے معیار کے مطابق کام کریں۔ کوالٹی اشورنس ڈویژن نے سال بھر میں ایک ہزار 285 جی ایم پی انسپکشن کیں اور 580جی ایم پی کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے گئے۔ڈریپ کی سنٹرل ڈرگ لیبارٹری، کراچی اور صوبائی لیبز نے کُل41ہزار 435ادویات کے نمونے ٹیسٹ کیے، جن میں سے محض 0.098فیصد ادویات جعلی نکلی اور 1.18فیصدغیر رجسٹرڈ نکلی ۔ 92.61فیصد ادویات اپنے معیار پر اتریں۔ ڈریپ نے ایک سال کے عرصے میں 9ہزار 987ڈرگ امپورٹ لائسنس جاری کیے، 5ہزار 329ادویات کی ایکسپورٹ کے این او سی جاری کئے۔ پاکستان میں فارماسیوٹیکل کی گزشتہ سال 21کروڑ 20لاکھ امریکی ڈالر کی برآمدات ہوئی تھی، جبکہ 2018میں یہ برآمدات بڑھ کر 24کروڑ78لاکھ 80ہزار امریکی ڈالرز کو پہنچ گئیں۔ اس وقت پاکستانی کمپنیاں دنیا کے 128ممالک کو ادویات برآمد کر رہی ہیں۔ ادویات برآمد کرنے والی کمپنیوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈریپ کے متعلقہ دفاتر بغیر فیس کے برآمد کے این او سی جاری کرتے ہیں اور ڈریپ نے ون ونڈو آپریشن کے تحت ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن ڈیسک بھی بنایا ہے۔ڈریپ کی اس برس کی قابل ذکر کامیابی جعلی ادویات کے خلاف کاروائیاں ہیں۔ ڈریپ ترجمان نے واضح کیا کہ یہ مہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے بعد بنائے گئےروڈمیپ کا حصہ ہے۔ مشترکہ ٹاسک فورس کی جانب سے مختلف چھاپوں کے دوران غیر رجسٹرڈ ادویات اور گورنمنٹ پراپرٹی ادویات کو بھی قبضے میں لیا گیا۔نیشنل ٹاسک فورس نے جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات کے خاتمے کے لیے 19مارچ 2018کو اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور تقریباً آٹھ ماہ کے دوران ملک بھر میں23ہزار 809انسپیکشنز رپورٹ کی گئیں اور ڈریپ ایکٹ 2012کی خلاف ورزی کے 3ہزار 445کیسزرپورٹ کیے گئے۔ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2015کا از سر نو جائزہ لے کر ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018کا وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد اجراءکیا گیا۔