اسلام آباد(رپورٹ: اخترصدیقی)پولیس حکام نے سانحہ ساہیوال میں ملوث پیٹی بھائیوں کوبچانےاور معاملے کو حل کرنے کے لیے مقتول خلیل کے ورثا سے صلح کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے ۔ مقتول کے ورثا کو دیت لے کر معاملہ حل کرنے کیلئے رابطے شروع کر دیئے گئے ہیں ، تاہم ورثانے کوئی بھی جواب دینے سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالت غم سے نکلنے پر ہی جواب دیاجائے گا۔ذرائع نے ‘‘امت ’’کو بتایا کہ پولیس حکام نے مقتول خلیل کے ورثا پر صلح کیلئے دباؤڈالنا شروع کر دیاہے۔ پولیس حکام کی کوشش ہے کہ متاثرہ خاندان خون بہالے کر معاملہ ختم کردے ، تاہم ابھی تک انہیں کی ورثا کی جانب سے مثبت جواب ملا ہے اور نہ ہی وہ کسی بھی طور پر تھانے میں پیش ہونے کو تیار ہیں۔پولیس افسران کی کوشش ہے کہ ورثا کا نامکمل بیان ریکارڈکرکے ان کا کیس مزید کمزور کر دیاجائے۔ادھر مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انہیں انصاف نہ ملا تو وہ اہلخانہ کے ہمراہ فیروز پور روڈ بلاک کر کے دھرنا دیں گے۔
٭٭٭٭٭
لاہور/ اسلام آباد(نمائندگان امت / مانیٹرنگ ڈیسک)پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کو مقتول خلیل اور اہل خانہ کے قتل کا ذمہ دار قرار دیدیا ہے ۔آئی جی پنجاب کیخلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریز کرتے ہوئے کئی اعلی افسر ہٹا دیئے گئے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب کی خدمات واپس وفاق کے حوالے کر دی گئی ہیں ۔ایس ایس پی و ڈی ایس پی سی ٹی ڈی ساہیوال کو معطل کر دیا گیا۔ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں سی ٹی ڈی کے6 اہلکاروں کو براہ رست جبکہ 4 اہلکاروں پر مدد کرنے کا الزام ہے۔ باقی اہلکاروں کیخلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔جے آئی ٹی سربراہ اعجاز شاہ نے ساہیوال میں گفتگو کے دوران 6 اہلکار روں کے زیر حراست ہونے کی تصدیق کی تھی ،تاہم انہوں نے10 اہلکاروں کے بارے میں ذکر نہیں کیا تھا۔مقتولین کے ورثا نے16سی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔2روز تک حکومت 16 اہلکاروں کے حراست میں ہونے بھی موقف بیان کرتی رہی ہے۔ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ ملوث 5اہلکاروں کیخلاف مقدمہ دفعہ 302کے تحت درج کیا گیا جو انسداد دہشت گردی عدالت میں چلایا جائے گا ۔ذیشان جاوید کا کر دار مشکوک ہے جس کے بارے میں مزید تحقیقات کی جائیں گی۔ بعض ٹی وی چینلز اطلاعات کے مطابق ذیشان جاوید کے دہشت گردوں سے تعلقات کے ٹھوس شواہد مل گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پیش کر دی گئی ہے ۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ رپورٹ میں6 اہلکاروں کو براہ رست جبکہ4 کو جرم میں معاون قرار دیا گیا ہے ، باقی کیخلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پیر کو رابطہ کرنے والے3گواہوں کے بیان ریکارڈ کرلیے ہیں ، انہوں نے اپنے 2موبائل فونز کی ویڈیوفوٹیجز بھی ٹیم کو جمع کرادی گئی ہیں جن کا فارنسک جائزہ لیا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں بھی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ مقتول ذیشان کس کردار کاحامل شخص تھا۔ اس پر کیوں گولی چلائی گئی ،پولیس کوکب اس کے سڑک پر آنے اور پھر آگے جانے کی اطلاع ملی تھی ،کس کس نے رابطہ کیاتھااور مقتولین کے موبائل فونزپر کس کس کی کالز ایس ایم ایس آئے،یہ سب بھی رپورٹ کاحصہ بنائے گئے ہیں ۔رپورٹ میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کے حوالے سے بھی تجزیہ بھی شامل ہے جس میں ان کے سروس ریکارڈ،اورموجودہ تعیناتی اور واقعے کے بارے میں تفصیل سے بیان کیاگیاہے ۔رپورٹ میں مقتولین کے پاس کار میں موجود سامان،زیورات اور کپڑوں کی فہرست بھی شامل کی گئی ہے۔دیگر ذرائع کے مطابق تفتیش کے لیے فارنسک ایجنسی کو ادھوری چیزیں بھیجی گئیں۔ ایجنسی کو ایس ایم جی سے چلی ہوئی 45 گولیوں کے خول بھیجے گئے جبکہ ایس ایم جی سے چلی اور پوسٹ مارٹم سے ملنے والے گولیاں نہیں دی گئیں۔فارنسک ایجنسی کو9 ایم ایم کی 5 گولیاں بھی بھیجی گئیں جبکہ ایس ایم جی نہ بھیجنے کی وجہ سے تجزیہ کرنا مشکل ہے۔ ایس ایم جی کے بھیجے گئے45 خول تجزیہ کے بعدصرف محفوظ کرسکتے ہیں۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی و پولیس کے استعمال میں ایس ایم جیز ہی ہوتی ہیں۔جے آئی ٹی سربراہ اعجاز شاہ نےسانحہ میں6 اہلکاروں ہی کے زیر حراست ہونے کا دعویٰ کیا تھا تاہم دیگر 10 اہلکاروں کے بارے میں نہیں بتایا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقتولین کے ورثا نے سی ٹی ڈی کے 16 اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرا رکھا ہے ۔منگل کو ساہیوال میں گفتگو کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ نے منگل کی شام 5بجے تک حتمی رپورٹ نا ممکن قرار دیدی تھی تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب نے تحقیقات کیلئے مزید وقت دینے سے انکار کر دیا۔72 گھنٹے کا وقت منگل کی شام 5 بجے ختم ہوتے ہی وزیر اعلیٰ ہاؤس لاہور میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت اجلاس شروع ہو گیا جس میں سینئرصوبائی وزیر علیم خان،وزیر قانون راجہ بشارت،چیف سیکریٹری پنجاب،آئی جی پنجاب پولیس ،جے آئی ٹی ارکان اور متعلقہ ایجنسیوں کے حکام شریک ہوئے۔جے آئی ٹی کے سربراہ نے اجلاس کو بریفنگ دی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ادھوری رپورٹ پیش کئے جانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ پنجاب حکومت کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں سی ٹی ڈی افسران و اہلکاروں کو خلیل کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ مقتول خلیل و اہل خانہ کا دہشت گردی سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔دوران اجلاس وزیر اعلیٰ پنجاب نے دوحہ میں موجود وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان کو اعلیٰ افسران کیخلاف فیصلوں سے آگاہ کیا جس کی وزیر اعظم نے بھی منظوری دی۔اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے ساہیوال آپریشن صحیح یا غلط ہونے کے سوال پر کہا کہ آپریشن100فیصد درست ہوا تھا ۔ ذیشان گناہ گار تھا جس کے بارے میں مزید تحقیقات ہوں گی ۔ اس ضمن میں جے آئی ٹی سربراہ نے حکومت سے مزید وقت مانگا ہے ۔قتل کے ذمہ دار سی ٹی ڈی اہلکاروں نے طے شدہ حد سے تجاوز کیا۔رپورٹ کی روشنی میں ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی پنجاب، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی،ایس ایس پی و ڈی ایس پی سی ٹی ڈی ساہیوال کو معطل کر کے وفاقی حکومت کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔قتل میں ملوث5اہلکاروں کے خلاف چالان انسداد دہشت گردی عدالت میں بھیجا جائے گا۔سانحہ پر بدھ کو میڈیا کو ان کیمرا بریفنگ دی جائے گی جس میں مزید تفصیلات سامنے لائی جائیں گی ۔یہ ٹیسٹ کیس ہے۔ پنجاب حکومت اسے مثال بنا کر متاثرین کو انصاف دے گی۔ذیشان کی معلومات جمع کرنے کے لئے جی آئی ٹی سربراہ نے مزید وقت مانگا ہے۔ہم نے اپنا قول پورا کیا ہے۔ماضی میں کبھی 72 گھنٹوں میں کارروائی نہیں کی گئی۔ہماری عہد عوام کے ساتھ ہے، پنجاب حکومت کا ایک دائرہ کار ہے اسی میں رہ کر ہم نے کام کرنا ہے۔قبل ازیں راجہ بشارت نے سانحہ پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کی امید ظاہر کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعلیٰ رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئے تو جوڈیشل کمیشن کے قیام کا فیصلہ ان کی صوابدید ہوگی ۔ایک ٹی وی چینل کے مطابق انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتول ذیشان کے دہشت گردوں سے رابطے کے ٹھوس شواہد مل گئے۔ ذیشان کے موبائل فون سے عثمان ہارون نامی دہشت گرد کی تصویر ملی ہے۔ذیشان کی گاڑی عدیل حفیظ نے خریدی تھی۔ عثمان ہارون و عدیل حفیظ15جنوری فیصل آباد مقابلے میں مارے گئے تھے ۔علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ نے اعجاز شاہ کی میڈیا سے بات چیت پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بیان بازی سے روک دیا ہے۔