پشاور/ دوحہ/ کابل (نمائندہ امت/ امت نیوز) افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں ہونے والی بات چیت میں کچھ پیشرفت ہو گئی ہے۔ فریقین نے ایک دوسرے کے ایک ایک مطالبے سے اتفاق کرلیا ہے، تاہم بگرام ایئربیس اپنے پاس رکھنے کے امریکی مطالبے پر مذاکرات اٹک گئے ہیں۔طالبان نے خانہ جنگی سے بچنے کیلئے امریکہ سے اپنا تمام اسلحہ واپس لے جانے کا مطالبہ کر دیا ہے اور اس نکتے پر بات چیت جاری ہے۔جزوی پیشرفت کی بدولت مذاکرات میں ایک دن کی توسیع کردی ہے۔ فریقین میں بات چیت جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔ پہلی مرتبہ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی طالبان سے امریکی مذاکرات پر اعلامیہ جاری کیا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان پہلے بھی اعلانیہ مذاکرات کے3 ادوار ہوچکے ہیں اور فریقین کی بات چیت کبھی خفیہ نہیں رہی، تاہم محکمہ خارجہ کا اعلامیہ بجائے خود بڑی پیشرفت سمجھا جارہا ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق طالبان کی جانب سے وردک میں خفیہ ادارے کے مرکز پر حملے و 65افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کئے جانے کے باوجود بدھ کو مذاکرات کا انعقاد حیران کن ہے۔ مذاکرات میں جنگ بندی پر بھی غور کیا گیا۔تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کو افغانستان میں جاری حملوں کی وجہ سے مذاکرات کی میز پر قدرے برتری حاصل ہوگئی ہے۔افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ترجمان امید میثم کا کہنا ہے کہ آخر کار طالبان کو کابل حکومت سے بات کرنی ہی پڑے گی، سیز فائر کا حتمی فیصلہ غنی حکومت ہی کرے گی۔تفصیلات کے مطابق طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات پیر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوئے تھے، جہاں طالبان کا سیاسی دفتر بھی ہے۔ مذاکرات2 دن تک ہونے تھے، تاہم ایک دن کی توسیع ہونے پر بدھ کو بھی بات چیت جاری رہی۔پیشرفت کو دیکھتے ہوئے چوتھے روز یعنی جمعرات کو بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو بی بی سی پشتو کو بتایا کہ قطر مذاکرات میں طالبان کے 8نمائندے احمد ستنکزئی کی قیادت میں شریک ہیں، جبکہ امریکہ کے11رکنی وفد کی قیادت صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندہ برائے مفاہتمی عمل افغان نژاد سفارت کار زلمے خلیل زاد کررہے ہیں۔‘‘امت’’ کے ذرائع کے مطابق امریکی وفد میں اس بار محکمہ دفاع کے علاوہ محکمہ خزانہ کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو بتایا تھا کہ مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے امریکی انخلا کی تاریخ طے کرنے اور افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینا ہے۔ ذرائع نے‘‘امت’’ کو بتایا کہ ان دونوں نکات پر فریقین میں اصولی اتفاق ہوگیا ہے۔طالبان نے یقین دہانی کرادی ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلا پر اتفاق کرلیا ہے۔ طالبان کی جانب سے امریکہ کو بتدریج انخلا کے لیے جولائی 2020 تک کا وقت دینے پر بھی آمادگی ظاہر کردی گئی ہے۔انخلا کی جزیات کے2 نکات پر بات چیت اٹک گئی ہے۔امریکہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسے 5ہزار فوجی بگرام ایئربیس پر رکھنے دیئے جائیں۔ جہاں وہ بغیر پائلٹ جاسوس طیاروں ڈرونز اور لڑاکا طیاروں کا بیڑا بھی رکھے گا۔ماضی میں امریکہ 3اڈوں کا مطالبہ کرتا رہا ہے، لیکن اب وہ ایک اڈے پر آگیا ہے۔طالبان امریکہ کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔طالبان کا کہنا ہے کہ اسے افغان سرزمین پر امریکی فوجی اڈا قبول نہیں، امریکہ کو مکمل انخلا کرنا ہوگا۔دوسرا نکتہ امریکی اسلحے سے متعلق ہے۔ طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ اپنا تمام اسلحہ افغانستان سے واپس لے کر جائے۔ کیونکہ اگر ہتھیار افغانستان میں رہے تو ماضی کی طرح افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔ افغانستان میں اربکی سمیت مختلف ملیشیا فورسز ہیں اور امریکی اسلحے کی موجودگی تباہ کن خانہ جنگی کا سبب بن سکتی ہے۔امریکیوں کو اپنے ہتھیار واپس لے جانے کیلئے ٹرانسپورٹیشن پر بھاری رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو افغانستان میں موجود اپنا اسلحہ بیچنے کی پیشکش کی ہے، تاہم پاکستان نے فنڈز نہ ہونے کی بنا پر ہتھیار خریدنے سے انکار کردیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ اس کا 2014 میں کرزئی حکومت سے دفاعی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے، اسی معاہدے کی رو سے واشنگٹن کو بگرام ایئربیس اپنی تحویل میں رکھنے کی اجازت دی جائے۔طالبان کا مؤقف تھا کہ انہوں نے نہ تو کابل کی کسی حکومت کو تسلیم کیا ہے نہ ہی اس کے کسی معاہدے کو مانا ہے۔ اس کی جانب سے 2014 کے معاہدے کی کسی شق پر عمل کرنے کا مطلب کابل حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا۔اس لئے وہ اس پر عمل نہیں کرسکتے۔ذرائع کے مطابق امریکی حکام چاہتے ہیں کہ29 جنوری کو ٹرمپ کے سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب سےپہلے اس کا طالبان سے کوئی معاہدہ طے پا جائے۔ایسا نہ ہوا توممکن ہے ٹرمپ انخلا کا یک طرفہ اعلان کردیں، جس سے بڑی افراتفری پھیلے گی۔ سابق طالبان کمانڈر سید اکبر آغا کا کہنا ہے کہ امریکہ و طالبان کے مذاکرات نے اُمید کی کرن جگائی ہے۔ مذاکرات میں تسلسل اس بات کا عکاس ہے کہ فریقین کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭