کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)کراچی میں عمارتیں گرانے کے عدالتی حکم سے سندھ میں آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا، صوبائی حکومت نے عمل درآمد سے انکارکر دیا۔حکام کو مسماری کی کارروائی نہ کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔سپریم کورٹ میں جمع کرانے کیلئے کیلئے ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی سمری کو بھی التوا میں ڈال دیا گیا ۔البتہ پارکوں،رفاعی،سرکاری اراضی پرتجاوزات کیخلاف ہنگامی آپریشن کلین اپ کی منظوری دے دی گئی۔وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا ہے کہ قانونی زمین کمرشلائز کی گئی ہے۔عمارتیں گرانے کی بجائےمستعفی ہونا بہترسمجھوں گا۔ اس حوالے سے میئر نے بھی اظہار بے بسی کیا ہے۔وسیم اختر کا کہنا تھا کہ گھر کیسے توڑیں گے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا ہے کہ رہائشی عمارتیں گرانے کا حکم نہیں آیا ،جبکہ سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیرگھمرو کا کہنا تھا کہ معاملے پر کمیٹی قائم کی جائے۔تفصیلات کے مطابق شہر میں 500 عمارتیں گرانے کے سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ حکومت اور میئر کراچی نے عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے کنورژن کے معاملے پر موقف سے سندھ میں آئینی بحران جنم لینے کا خدشہ ہے۔ سندھ حکومت نے تمام متعلقہ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ کسی بھی رہائشی عمارت کو گرانے سے متعلق کوئی آپریشن نہ کیا جائے ۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی طرف سے تیار کی گئی سمری کو بھی التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایس بی سی اے نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے چیف سیکریٹری کو ایک سمری ارسال کی تھی ،جس کو سپریم کورٹ میں جواب کے طور پر جمع کرانے کے لئے بھی کہا گیا تھا۔ اس میں ایس بی سی اے نے سخت موقف اختیار کیا تھا۔ایس بی سی اے حکام نے ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ اینڈ اسپیٹئل ڈیولپمنٹ بورڈ یا محکمہ تشکیل دینے، ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو الگ ادارہ بنانے کی تجویز تک دے ڈالی تھی اور حکومتی این او سیز کے باوجود کنورٹڈ عمارتوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی بھی تجویز دی تھی۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے جمعہ کے روز تمام متعلقہ اداروں کو کسی بھی آپریشن سے روک دیا اور سیکریٹری بلدیات کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ پارکوں، رفاعی اور سرکاری اراضی واگزار کروانے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ سیکریٹری بلدیات کی ہدایات پر میئر کراچی وسیم اختر کی صدارت میں اہم اجلاس منعقد ہوا ،جس میں تمام بلدیاتی اداروں کے متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے احکامات کابغور جائزہ لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں میئر کراچی نے تمام متعلقہ اداروں کے حکام سختی سے ہدایت کی کہ پیر کے روز 2 بجے تک ہر صورت میں ان تمام پارکوں کی فہرست مرتب کی جائے جن پر قبضہ ہو چکا ہے یا جن پارکوں اور رفاعی اور بلدیاتی اداروں کی زمین کی نوعیت کو غیر قانونی طریقے سے کمرشل یا رہائشی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ میئر کراچی نے حکام پر واضح کیا کہ اس سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی ۔پیر کے بعد آپریشن کی حکمت عملی مرتب کی جائے گی اور تمام پارکس، رفاعی پلاٹ اور بلدیاتی اداروں کی زمین پر قائم تجاوزات کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ دریں اثنا صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے ‘‘امت’’ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے ،جس سے سندھ میں کوئی انسانی المیہ جنم لے۔ سپریم کورٹ کے احکامات اپنی جگہ پر لیکن میں کسی کا گھر نہیں گرا سکتا، چاہے مجھ پر توہین عدالت لگائی جائے۔عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ،لیکن اگر یہ کہا گیا کہ پانچ سو عمارتیں گرادو ،جس میں لوگ رہ رہے ہوں تو یہ نہیں کرسکتا۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ قانونی زمین کو کمرشلائز کیاگیا ،انہیں توڑا گیا تو استعفیٰ دے دوں گا۔ سعید غنی نے کہا ہزاروں دکانیں توڑ کر لاکھوں لوگوں کو بیرزگار کیا جا چکا ہے۔ روزگار تو چھینا گیا ہے کیا اب لوگوں سے چھت بھی چھین لیں؟ ہمارا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان ہے ،ہم چھت چھین کیسے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 500 عمارتوں کو توڑنے کی بات غلط ہے ،اصل میں جن عمارتوں کو کو کنورٹ کیا گیا ہے ،ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ،اتنے سارے لوگ کہاں جا ئیں گے۔ وزیر بلدیات نے کہا ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کے گھر گراؤ ،انہیں بے گھر کرو اور پھر کہہ رہے ہو کہ ان کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں ،یہ عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ سعید غنی نے کہا سپریم کورٹ میں پارک کی الاٹمنٹ کے حوالے سے جو کہا گیا ،وہ درست ہے 2001 سے 2011 تک ماسٹرپلان کامحکمہ سٹی گورنمنٹ کے پاس رہا، ہزاروں عمارتیں بغیر کسی اجازت کے تعمیر کی گئیں۔پارکوں کو واگزار کروانا سٹی گورنمنٹ کا کام ہے اور یہ اس کو کرنا چاہئے۔علاوہ ازیں ‘‘امت’’ کی طرف سے رابطہ کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کا کہنا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ نے کوئی ہدایت نہیں کی ہے کہ لوگوں کے گھر توڑیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ رفاعی پلاٹوں ، پارکوں اور سرکاری مقامات پر اگر کوئی عمارت تعمیر کی گئی ہے ،اس کو گرا دیا جائے۔ عدالت کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا کہ رہائشی عمارتوں کو گرا دو۔ اگر کوئی رہائشی پلاٹ تھا ،اس کو کنورٹ کر کے کمرشل کر دیا گیا اور اوپر فلیٹ بن گئے ہیں تو اس کو بھی توڑنے کا کوئی آرڈر نہیں آیا اور نہ واضح ہدایات جاری ہوئی ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا ایسی عمارتیں کیسے توڑ سکتے ہیں؟ جو پلاٹ مختلف افراد کو منتقل ہوا اور جس نے دو ڈھائی ماہ قبل خریدا ہے اور اس سے وہ چھین لیا جائے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے کہ لوگوں کو بے گھر کیا جائے، جس عمارت میں درجنوں خاندان بستے ہوں ،ان کو نکال کر روڈ پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جتنی بھی کمرشلائیزیشن ہوئی تھی ،وہ اس وقت عدالت میں چیلنج ہوئی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس کو درست قرار دیا تھا اور سپریم کورٹ نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کی تھی۔ جام صادق پارک کے حوالے سے بھی سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں ۔ کوئی زمین پارک کے لئے الاٹ نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کے ڈی اے اور ایس بی سی اے کے کسی نقشے میں جام صادق پارک کا کوئی وجود ہے اور جسٹس گلزار کا اپنا فیصلہ بھی موجود ہے۔جبکہ میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ جن عمارتوں میں لوگ رہائش پذیر ہیں ،انہیں ہم کیسے گراسکتے ہیں ،البتہ پارکوں اور رفاعی پلاٹوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات تسلیم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کے احکامات دئیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا سندھ حکومت متاثرین کو متبادل بھی فراہم کرے۔رابطہ کرنے پر سابق ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر ضمیر گھمرو نے کہا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی غلط تشریح کر کے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو ۔اس لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو سمجھا جائے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چڑھا دئیے جائیں اور عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر تصادم سے گریز کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ماضی میں آنے والے فیصلوں اور کنورژن کا جائزہ لے اور دیکھا جائے کہ کنورژن قانون کے تحت ہوئی ہے کہ نہیں۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ڈی جی ایس بی سی اے افتخار قائمخانی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی ،لیکن انہوں نے کال وصول نہیں کی۔
٭٭٭٭٭