مغرب سے درآمد آئین قبول نہ کرنے کا طالبان اعلان

پشاور(نمائندہ خصوصی)افغان طالبان سے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں40 رکنی وفد نے منگل کو روس میں مذاکرات شروع کر دئیے ہیں ۔ ماسکو مذاکرات نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک بار پھر مزید تنہا کر دیا ہے ۔بات چیت کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہے گا ۔مذاکرات کے دوران طالبان اور افغان سیاسی رہنماؤں نے مل کر نماز بھی ادا کی ۔افغان صوبہ بغلان میں طالبان کے2حملوں میں 21 اہلکار ہلاک ہو گئے۔تفصیلات کے مطابق افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی سربراہی میں افغان سیاسی جماعتوں کے قائدین اور قبائلی رہنماؤں پر مشتمل وفد نےشیر محمد عباس استنکزئی کی سربراہی میں روسی دارالحکومت ماسکو میں ملک کے مستقبل پر مذاکرات شروع کر دیئے ہیں ۔حامد کرزئی پہلی بار طالبان نمائندوں کے روبرو بیٹھے ہیں ۔سابق طالبان وزیر خارجہ ملا وکیل احمد متوکل اور پاکستان میں سابق طالبان سفیر ملا ضعیف،ہرات کے سابق گورنر اور سابق وزیر جنرل اسماعیل خان، کابل سےاستاد سیاف ،افغان صدر کے سابق مشیر سلامتی امور حنیف اتمر،جمعیت اسلامی کے عطا محمد نور،حزب وحدت کے استاد محقق، سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی اور افغانستان کے مختلف قبائلی عمائدین شامل ہیں ۔ مذاکرات کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی بالکل تنہا ہو گئے ہیں ۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ ماسکو مذاکرات میں انہوں نے اپنی پارٹی کا نمائندہ بھی بھیجا ہے جبکہ شمالی اتحاد کی نمائندگی یونس قانونی کر رہے ہیں ۔اسی لئے مجھے طالبان کے ساتھ ملاقاتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم اس کے نتائج سے پوری قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔ماسکو میں مذاکرات کے آغاز پر طالبان وفد کےسربراہ شیر محمد عباس استنکزئی نے کہا کہ ملک کا موجودہ آئین غیر قانونی ہے ،کیونکہ یہ بیرونی قوتوں کی جانب سے افغان عوام پر مسلط کیا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا موجودہ آئین امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ،جسے دور کرنا ہوگا۔افغانستان کیلئے نئے آئین کی تشکیل ضروری ہے ۔اقتدار میں آ کر دستور کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے گا ۔ یہ دستور علما وضع کریں گے۔اقتدار میں آکر طالبان پوست کی کاشت ختم کرا دیں گے۔سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے مختصر خطاب میں امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام گروپوں کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہئے۔قبل ازیں میڈیا سے بات چیت میں سابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ وہ سابق افغان وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کی تجویز کے مطابق طالبان سے قیام امن،وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر بات کریں گے ۔ ہم افغان فوج کے حوالے سے طالبان وفد کے قائد عباس استنکزئی سے ان کے اس بیان پر بھی بات چیت کی جائے گی کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد فوج کی از سر نو تشکیل کریں گے، میرٹ پر لوگ منتخب کئے جائیں گے ۔ حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ موجودہ فوج کے حوالے سے افغانستان میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ کرزئی کے مطابق طالبان کے ساتھ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ افغان فوج کی تشویش ختم کریں کیونکہ افغان فوج کا تعلق بھی افغان سرزمین سے ہے اور اس میں مختلف قوموں کے لوگ شامل ہیں ۔ادھر طالبان کے میڈیا کمیشن کے اسد افغان کا کہنا ہے کہ افغان فوج کی از سر نو تشکیل کا بیان عباس استنکزئی کی ذاتی رائے ہے۔طالبان شوریٰ نے افغان فوج کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اسد افغان کا کہنا ہے کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد فوج میں کچھ تبدیلیاں ضرور کریں گے۔فوج میں بھرتی خواتین کو جنگ کے بجائے طبی تربیت دی جائے گی ۔افغان افواج سے خواتین کو نہیں نکالا جائے گا البتہ طالبان خواتین کے جنگوں میں حصہ لینے کے خلاف ہیں ۔ اس لئے خواتین اہلکاروں کو تربیت دے کر میڈیکل کور میں بھیجا جائے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار پہلے ہی تجویز پیش کر چکے ہیں کہ اگر افغان طالبان حکومت میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ایک مخصوص مدت کے لئے تمام افغانوں پر مشتمل وسیع البنیاد حکومت تشکیل دی جائے۔افغان آئین میں لویہ جرگہ کے ذریعے تبدیلی لائے اور اسی آئین کے مطابق انتخابات کرائے جائیں ۔ دوسری جانب منگل کو صوبہ بغلان و سمنگان میں طالبان کے2 حملوں میں21اہلکار ہلاک ہو گئے۔بغلان کی صوبائی کونسل کے سربراہ صفدر محسنی نے بتایا کہ بغلانی کے ضلع مرکزی میں طالبان نے پیرو منگل کی درمیانی شب ایک چوکی پر حملہ کر کے مقامی پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ پولیس اور طالبان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ 2گھنٹے تک جاری رہا۔طالبان کے حملے میں5افغان پولیس ہلکار زخمی بھی ہوئے۔ طالبان نے صوبہ سمنگان میں حکومت کے حامی ملشیا پر حملہ کر دیا ،جس کے نتیجے میں10افراد ہلاک ہو گئے۔اس حوالے سےترجمان صوبائی گورنر صدیق عزیزی کا کہنا ہے کہ حملہ ضلع ڈیڑہ ون ہوا جس کے نتیجے میں4افراد بھی زخمی ہوئے۔

Comments (0)
Add Comment