فارنسک رپورٹ میں سی ٹی ڈی کاجھوٹ بے نقاب

اسلام آباد/ لاہور(رپورٹ:اختر صدیقی/نمائندہ امت)فارنسک رپورٹ میں سانحہ ساہیوال کے مقتولین کی جانب سے پولیس کی موبائل پر فائرنگ کےسی ٹی ڈی کا دعویٰ جھوٹ ثابت ہو گیا ہے۔سانحہ کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم 7روزمیں تحقیقات مکمل کر لے گی۔مقتولین کے ورثا ملزمان کی شناخت کے عمل میں شامل ہونے والے اور جے آئی ٹی کو 72گھنٹے میں بیانات ریکارڈ کرانے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔مقتول ذیشان کے بھائی احتشام نے سانحہ ساہیوال کیس میں جوڈیشل کمیشن نہ بننے کا اقدام ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے ۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ متاثرین چاہیں تو سانحہ کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کی جگہ عدالتی تحقیقات کا حکم جاری کیا جائے گا۔ کمیشن کے بجائے انکوائری رپورٹ کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔تفصیلات کے مطابق فارنسک سائنس ایجنسی نے سی ٹی ڈی کے ایک اور جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سانحہ ساہیوال میں شریک پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر کار سے فائرنگ کا دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔پولیس گاڑی پر لگنے والی6گولیاں سرکاری اسلحہ سے فائر ہوئیں۔سی ٹی ڈی اہلکاروں نے فائرنگ کے بعد سرکاری گاڑی میں لاشیں رکھ کر پولیس لائنز شفٹ کی تھیں جہاں کا سی سی ٹی وی ریکارڈ بھی غائب ہے۔ساہیوال اسپتال کے سی سی ٹی فوٹیج میں بھی رد و بدل کی گئی۔سانحہ ساہیوال میں استعمال والے4رائفلیں اور 3نائن ایم ایم پستول گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں سے لے کر پنجاب فارنسک سائنس ایجنسی میں جمع کرائے گئے۔ استعمال شدہ گولیاں و خول پہلے جمع کرائے جا چکے ہیں۔جے آئی ٹی نے گرفتار سی ٹی ڈی اہل کار پنجاب فارنسک ایجنسی لے جائے گئے۔گرفتار سی ٹی ڈی اہل کاروں کا فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کیا گیا۔اس ٹیسٹ سے موبائل فون فوٹیجز و اہلکاروں کا موازنہ کیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔ باخبر ذرائع نے امت کو بتایا کہ سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جا نے والا مقتول خلیل کا بیٹا عمیر اور مقتول کا بھائی جلیل لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ورثا سانحہ کے ملزمان کو کیفر کر دار تک پہنچانے کیلئے ملزمان کی شناخت کے عمل میں بھی حصہ لیں گے ۔ورثا کی جانب سے جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر جمع کرانے کیلئے تحریری بیان تیار کر لیا ہے جو72گھنٹوں میں قلمبند کرائے جائے گا ۔بیان میں موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے ہلاکتوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے سی ٹی ڈی اہل کاروں کو مجرم قرار دے کر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا ۔بیان میں فائرنگ سے زندہ بچ جانے والے عمیر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے سب کو قتل ہوتے دیکھا تھا ، اس دوران ابو منتیں کرتا رہا ۔بہن کو کار سے نکال کر مارا گیا۔ بعد میں سی ٹی ڈی والوں نے سب کو پیٹرول پمپ پر چھوڑا اور پھر اسپتال میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ فائرنگ سے بچ جانے والے عمیر اور اس کی بہنوں ہادیہ اور منیبہ کو بہت ہی تکلیف دہ حالات کاسامناکرناپڑا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فائرنگ کر کے قتل کرنے والوں کی تعداد11ہے ۔ کم لوگ گرفتار کر کے خانہ پری کی جا رہی ہے ۔بیان میں موقف اپنایا جا رہا ہے کہ سی ٹی ڈی اہل کاروں نے لوگوں کو ناحق قتل کیا،گولیاں بے رحمی سے چلائیں ، اس دوران بچوں اور قواعد و ضوابط تک کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ورثا کی جانب سے سانحہ کے پیچھے لوگوں کو بھی بے نقاب کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا جائے گا ۔بیان میں بتایا جائے گا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے بغیر کسی تصدیق کے اور کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونے کے باوجود مقتول بھائی خلیل، ان کی اہلیہ اور بیٹی کے علاوہ ڈرائیور ذیشان کو اندھا دھند فائرنگ کر کے گولیاں ماری گئیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔باخبر ذرائع کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مقتول خاندان کے ورثا سے جمعہ کو ملاقات کر کے مزید حقائق و تفصیلات حاصل کرے گی۔ اس ضمن میں مقتولین کے ورثاسے بعض سوالات کے جوابات بھی مانگے گئے ہیں جن کے جوابات جلد دینے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ ادھر میڈیاسے گفتگو میں مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے گارنٹی ملنے پر وہ جے آئی ٹی میں پیش ہو رہے ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ اگر جے آئی ٹی پر اطمینان نہ ہوا تو عدالتی کمیشن بنایا جائے گا۔ادھرچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان کی سربراہی میں2رکنی بنچ نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کیلئے مقتول خلیل کے بھائی جلیل کی درخواست کی سماعت کی۔اس موقع پر چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے کہا کہ متاثرین چاہیں تو سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے بجائے عدالتی انکوائری کرائی جاسکتی ہے کیونکہ کمیشن کی رپورٹ کے بجائے جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی بنائی جا سکے گی ۔ اس پر مقتول خلیل کے بھائی کی استدعا پر عدالت نے جواب دینے کیلئے مہلت دیدی ہے اور وفاقی حکومت کو کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ایک ہفتے میں عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیا۔ دوران سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ بھی پیش ہوئے۔عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ کو مقتول خلیل کے بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کرنے کی ہدایت اور پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ متاثرین نے وزیر اعظم سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا نہیں کی۔اس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے۔جس کی حکومتی وکیل نے نفی کی اور بتایا کہ ابھی تک چشم دید گواہ کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے درخواست گزار جلیل کے وکیل بیرسٹر احتشام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ عینی شاہدین پر بھروسہ کریں گے تو آپ کا کیس خراب ہو جائے گا۔دوران سماعت مقتول ذیشان کی والدہ کے وکیل فرہاد علی شاہ نے موقع کے گواہ ڈاکٹر ندیم، میاں عامر و رشید کی فہرست پیش کی۔اس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کر کے بلائے اور ان کے بیانات ریکارڈ کرے۔اسی بنچ کے روبرو مقتول ذیشان کے بھائی احتشام نے جوڈیشل کمیشن نہ بننے کا اقدام چیلنج کیا۔ اس ضمن میں دی گئی درخواست میں عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ عدالت قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے ذیشان کو بے گناہ قرار دے۔

Comments (0)
Add Comment