کراچی(رپورٹ:عمران خان) ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی کردار اسلم مسعود کوانٹر پول کی مدد سے جدہ سے لانے کے بعد اپنی تحویل میں لے لیا ہے ۔ اسلم مسعود کے سلطانی گواہ بننے کا امکان ہے ۔ انہوں نے جان کو لاحق خدشات کے پیش نظر حکام سے کراچی میں منتقل نہ کرنے کی درخواست کی تھی ۔ اسلم مسعود کی وطن آمد نے سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ،اومنی گروپ کے مالکان و دیگر کیلئے خطرے کی نئی گھنٹی بجادی ہے۔ اومنی گروپ آف کمپنیز کے چیف فنانس آفیسر اسلم مسعود نے سندھ، سمٹ اوریونائیٹڈ بینکس میں29جعلی بینک اکاؤنٹس کھلوانے، اومنی گروپ مالکان کے کہنے پر ان اکاؤنٹس سے 24 ہزار ٹرانزیکشنز اور78سے زائد بینک اکاؤنٹس کے ذریعے101ارب کی منی لانڈرنگ میں اہم کردار ادا کیا ۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق اسلم مسعود اومنی گروپ کے مالکان کا فرنٹ مین ہے جس نے11 جعلی کمپنیوں کے نام پر32بینک اکاؤنٹس خود آپریٹ کئےجن سے زرداری گروپ، فریال تالپور،ڈی بلوچ و معروف بلڈرز کے بینک اکاؤنٹس میں اربوں منتقل کئے۔جے آئی ٹی میں یہ ثبوت بھی پیش کئے گئے کہ اسلم مسعود سابق صدر آصف علی زرداری کے ایک مبینہ فرنٹ مین یونس قدوائی سے تعلقات ہیں ۔ وہ انور مجید اور آصف علی زرداری کی آف شور کمپنیوں کو ڈائریکٹر بن کر چلاتے رہے۔ذرائع کے مطابق عدلیہ کو جےآئی ٹی کی حتمی رپورٹ پیش کئے جانے کے بعدبھی ایف آئی اے حکام کو باقی ماندہ کام نمٹانے کیلئے مزید 2ماہ کی توسیع دی گئی اور اس کی رپورٹ نیب حکام کو دینے کی ہدایت کی ۔ نئی تحقیقات کے دوران مزید10 مشکوک اکاؤنٹس بھی سامنے آئے جو مراد علی شاہ سمیت سندھ حکومت کی اہم شخصیات سے متعلق ہیں جن کے ذریعے سرکاری ٹھیکوں و فنڈز کی مد میں اربوں کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔یہ فنڈزمزید آف شور و جعلی کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کیلئے بھی استعمال ہوئے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں بھی اسلم مسعود کے بیانات کا اہم کردار ہے جس سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت،وزیر اعلیٰ سندھ کے لئے بھی نئی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ نمبر04/2018 درج ہونے پر اسلم مسعود تحقیقات شروع ہونے پر سعودی عرب چلے گئے تھے۔بینکنگ کورٹ کراچی نے اشتہاری قرار دے کر ان کے ریڈ وارنٹ جاری کئے تھے جس پرانہیں 4ماہ قبل انٹر پول کے ذریعے جدہ سے حراست میں لیا گیا ،تاہم طبیعت بگڑنے کی وجہ سے انہیں فوری طور پر پاکستان منتقل کرنے کے بجائے انٹرپول حکام کی حراست میں ہی جدہ کے نجی امریکی اسپتال میں زیر علاج رکھا گیا ،جہاں سے انہیں جمعہ کو اسلام آباد منتقل کر کے ایف آئی اے کی تحویل میں دیا گیا۔جدہ میں دوران علاج اسلم مسعود سے ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم نے تحقیقات کیں اور 39سوالات پر مشتمل سوالنامے کا 6صفحات پر مشتمل تحریری جواب دیا ،جسے سپریم کورٹ میں پیش کردہ حتمی رپورٹ کا پہلے ہی حصہ بنایا جا چکا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جدہ میں اسلم مسعود نے ایف آئی اے افسران کے سامنے اعترافی بیانات میں اومنی گروپ مالکان انور مجید،عبدالغنی مجید کے کہنے پر جعلی بینک اکاؤنٹس کھلوانے،آپریٹ کرنے اور اربوں کی ٹرانزیکشنز کا اعتراف کیا بلکہ انہوں نےسندھ میں بیمار صنعتوں کی خریداری کی آڑ میں سرکاری شوگر ملوں کو کوڑیوں کے دام اومنی گروپ کی جانب سے خریدنے ،سندھ حکومت سے سبسڈی کے نام پراربوں کے فنڈز ملنے کے اعترافات کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں تمام معلومات فراہم کیں۔انہو ں نے پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے کراچی منتقل پر جان کے لاحق خطرات کے پیش نظر اپیل کی کہ ان سے جدہ میں ہی بیانات لئے جائیں، پاکستان منتقل کرنا ناگزیر ہو تو اسلام آباد میں ہی رکھا جائے ۔اسلم مسعود کے اہلخانہ اس وقت برطانیہ میں مقیم ہیں،کچھ افراد کراچی میں ہیں جن کے حوالے سے اسلم مسعود نے خدشات کا اظہار کیا۔ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں اسلم مسعود کے تمام جرائم کی تفصیل بمعہ ثبوت موجود ہے۔رپورٹ ریفرنس دائر کرنے کے لئے نیب کو دیئے جانے کے باعث ان کے بیانات کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اور مقدمے کے حوالے سے ان کو بینکنگ کورٹ کراچی پیش کرنا بھی لازمی ہوگا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلم مسعود کی آئندہ چند دنوں میں کراچی منتقلی و عدالت میں پیشی کاامکان ہے ۔وعدہ معاف گواہ بننے کی صورت میں عدالت میں اعترافی بیان جمع کرانے کے بعد انہیں ممکنہ طور پر برطانیہ جانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ذرائع کے مطابق اسلم مسعود کے وعدہ معاف گواہ بننے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق اسلم مسعود نے جن 11جعلی کمپنیوں کے نام پر 32 اکاؤنٹس آپریٹ کئے ۔ ان میں عمیر ایسوسی ایٹس کے اکاؤنٹس10ارب 7کروڑ10 لاکھ کی ٹرانزیکشنز کی گئیں۔اقبال میٹل کے4اکاؤنٹس سے4ارب64کروڑ30لاکھ،لاجسٹک ٹریڈنگ کے 5اکاوئنٹس سےایک ارب96کروڑ80 لاکھ ،اے ون انٹر نیشنل کے5جعلی اکاؤنس سے 8ارب 46کروڑ60 لاکھ،رائل انٹر نیشنل کے3اکاؤنٹس سے ایک ارب 42 کروڑ 90لاکھ ، ابراہیم لنکرز کے ایک اکاؤنٹ سے ایک ارب ساڑھے7کروڑ،لکی انٹر نیشنل کے3اکاؤنٹس سے 8ارب 98کروڑ10لاکھ ،اوشین انٹر پرائزرز کے ایک اکاؤنٹ سے ایک ارب ساڑھے 99 کروڑ،ڈریم ٹریڈنگ کے ایک اکاؤنٹ سے2ارب 39کروڑ70 لاکھ ،رائل ٹریڈرز کے ایک اکاؤنٹ سے76کروڑ10 لاکھ اور گیٹ وے آئرن اسٹیل کے ایک اکاؤنٹ سے 58 کروڑ60 لاکھ کی ٹرانزیکشنز ہوئیں ۔مجموعی طور پر 24ہزار ٹرانزیکشنز کی گئیں،ٹرانزیکشنز کی چھان بین کے دوران 924افراد کےساڑھے11ہزرا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی گئی اور اس تحقیقات کیلئے 885افراد بلائے گئےان میں سے767افرادپیش ہوئے۔رپورٹ میں ثبوت اور شواہد کی روشنی میں 16ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی گئی۔ذرائع کے مطابق ڈی جی نیب راولپنڈی نعیم منگی کی سربراہی میں 4کمبائن ٹیمیں جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر آئندہ2ماہ میں 16ریفرنس دائر کرانے کے لئے پرعزم ہیں۔ ان میں سے9ریفرنس جعلی اکاؤنٹس و منی لانڈرنگ سے متعلق ہوں گے۔7دیگر ریفرنس سندھ حکومت سے متعلق ہوں گے،جس کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ میں ثبوت فراہم کئے گئے ہیں۔اسلم مسعوداومنی کے 4ملزمان قاسم علی،حسن بروہی اور محمد عمیر کے ذریعے رقوم اکاؤنٹس میں جمع وکیش کراتا تھا۔ آصف علی زرداری کی آف شور کمپنی روبی کون بلڈر میں ان کے مبینہ فرنٹ مین یونس قدوائی اور اسلم مسعود مشترکہ ڈائریکٹر بھی ہیں۔اس کمپنی کے ذریعے سندھ بینک سے ایک ارب روپے کا قرض لے کر اسے سمٹ بینک میں عبداللہ لوتھا کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا ، تاکہ سمٹ بینک کو سرمایہ فراہم کیا جاسکے۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق اسلم مسعود نے اومنی مالکان کی ہدایات پر جعلی بینک اکاؤنٹس سے اربوں کی منی لانڈرنگ اور ٹرانزیکشنز کے ذریعے اومنی گروپ کا ٹرن اوور7سے 8ارب سے زائد پر پہنچایا۔قلیل عرصہ میں بینک قرضے ،سبسڈی فنڈز کو مسلسل اور پیچیدہ بینک ٹرانزیکشنز کے ذریعے کمپنی کے سرمائے میں شامل کیا جاتا رہا ،جس سے کچھ ہی برسوں میں اومنی کا سرمایہ بہت زیادہ بڑھ گیا ۔اسلم مسعود کے نام پر بنائی گئی کمپنی اورینٹ آٹو موٹیوکے نام پر نوری آباد کے قریب 35ایکڑ صنعتی زمین الاٹ کرائی گئی۔کلفٹن میں 5ہزار اسکوائر یارڈ کے4پلاٹ آصف علی زرداری کی آف شور کمپنی پارک لین کے ذریعے یونس قدوائی نے خریدے جس کی تمام ادائیگیاں اسلم مسعود کے ذریعے چلائے جانے والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے کی گئیں۔ذرائع کے بقول اسلم مسعود ان تمام الزامات پر اپنے اعترافی بیانات دے چکے ہیں اور عدالت میں ان کے اعترافی بیانات اہم ہوں گے۔منی لانڈرنگ اسکینڈل میں اسلم مسعود کی جانب سے اومنی گروپ کے ایک ملازم طارق سلطان کے نام پر قائم اے ون انٹر نیشنل کے نام سے جعلی کمپنی کے اکاؤنٹ سے اربوں کی ٹرانزیکشنز پر بینکنگ فراڈ اور منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں مقدمہ الزام نمبر 04/2018درج ہے۔ مقدمے کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو ہیں ۔ اس کیس میں انور مجید ،عبدالغنی مجید ،آصف علی زرداری ،فریال تالپور ،سابق چیئرمین سمٹ بینک عبداللہ لوتھا ،صدر سمٹ بینک حسین لوائی کے علاوہ اسلم مسعود ان کے نائب عارف خان بینک افسران کرن امان ،نورین سلطان ،طلحہٰ رضا اور عدیل شاہ راشدی نامزد ہیں۔ مقدمہ میں انور مجید ،عبدالغنی مجید اور حسین لوائی گرفتار ہیں اور جیل میں ہیں ،جبکہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور ضمانت پر ہیں۔نصیر عبداللہ لوتھا ،طلحہٰ رضا،عارف خان امارات اور برطانیہ میں ہیں ،جن کی انٹر پول کے ذریعے گرفتاری کے لئے ریڈ وانٹ جاری کئے گئے ہیں۔مقدمے میں اسلم مسعود کا بیان ریکارڈ کرانے کے لئے انہیں کراچی لانا ضروری ہے۔اسی دوران مقدمہ کی تفتیش اسلام آباد منتقل ہوئی یا مقدمہ نیب کو منتقل کیا گیا تو اسلم مسعودکو اسلام آباد میں ہی پیش کیا جاسکتا ہے ۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد/کراچی(نمائندہ خصوصی / اسٹاف رپورٹر)جعلی بینک اکاؤنٹس کیس فیصلے کیخلاف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نےنظرثانی اپیل دائر کردی ہے۔ اپیلوں کی سماعت اگلے ہفتے کو مقررکیے جانے کاامکان ہے ۔چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں فل کورٹ نے پہلے ہی فیصلہ دیاتھاکہ نظرثانی اپیل اگلے ہفتے مصنف جج کی موجودگی میں سماعت کے لیے مقررکی جائے گی ۔ سندھ ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس کے گرفتار ملزمان حسین لوائی، طحہ رضا اور اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی ضمانت و ایف آئی اے تحقیقات سے متعلق درخواستوں پر نیب و دیگرسے15 فروری کو پیش رفت رپورٹ طلب کر لی ہے ۔تفصیلات کے مطابق جعلی اکاؤنٹس کیس فیصلے کیخلاف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نےنظرثانی اپیل دائر کردی ہے۔ جمعہ کو دائر نظرثانی درخواست میں جے آئی ٹی کی تشکیل میں حساس اداروں کے نمائندوں کی شمولیت پر اعتراض وسپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیار پر سوال اٹھایا گیا ہے۔بلاول کی جانب سے دائر نظر ثانی اپیل میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عدالت نے 7 جنوری کو جے آئی ٹی کی رپورٹ سے نام نکالنے کا حکم دیا تاہم تحریری فیصلے میں نام جے آئی ٹی رپورٹ سے نکالنے کا ذکر نہیں۔سپریم کورٹ صوابدیدی اختیار کا دائرہ کار طے کرے ۔طے کیا جائےکہ کس نوعیت میں صوابدیدی اختیار کا استعمال ہوسکتا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق مقدمہ نیب نہیں بینکنگ عدالت کا بنتا ہے۔لہٰذا عدالت 7 جنوری کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔وزیر اعلیٰ سندھ کی نظر ثانی اپیل میں 7 جنوری کے فیصلے کےپیرا 29تا35 اور 37 پر نظرثانی کی اپیل کی گئی ہے ۔ اس میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول زرداری کے نام نکالنے کے زبانی احکامات دیئے تھے ۔کیس کی مزید انکوائری اسلام آباد میں کرنے سے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے۔ کیس کی مزید انکوائری اسلام آباد میں کرنا شفاف ٹرائل سے انکار کے مترادف ہوگا۔جعلی اکاوٴنٹس کیس کی انکوائری کا تمام ریکارڈ نیب کراچی کے حوالے کیا جائے اور مزید تحقیقات کراچی میں ہی کی جائیں ۔ اگر کوئی نیب ریفرنس تیار ہوتا ہے تو وہ کراچی میں دائر کیا جائے۔عدالتی حکم نامہ چند حقائق کے برعکس ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے کبھی پوچھا گیا اور نہ ہی موقف سنا گیا ۔نظرثانی درخواست کے مطابق فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے تسلیم کیا کہ معاملہ نیب تفتیش کا متقاضی ہے۔عدالتی حکم نامے کا یہ حصہ حقائق کے بر عکس ہے کیونکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عمومی بات کی تھی۔درخواست میں جے آئی ٹی رپورٹ کے بعض حصوں پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ۔لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ حکم نامے سے مذکورہ عدالتی آبزرویشن حذف کی جائے۔عدالت نے بلاول زرداری اور مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل اور جے آئی ٹی رپورٹ سے نکالنے کا زبانی حکم دیا تھا جبکہ تحریری حکم نامے میں دونوں رہنماوٴں کے نام صرف ای سی ایل سے نکالنے کا حکم شامل کیا گیا۔اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے جعلی اکاوٴنٹس کیس کے فیصلے کے خلاف آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور اومنی گروپ کے مالک انور مجید بھی نظرثانی اپیل دائر کر چکے ہیں ۔ادھر سندھ ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار بینکر حسین لوائی، طحہ رضا اور اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی جانب سے ضمانت اور ایف آئی اے کی تحقیقات سے متعلق دائر درخواستوں پر نیب و دیگر مدعا علیہان سے 15 فروری کو پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔جمعہ کو نیب کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل کرنے سے متعلق پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ریکارڈ دیدیا ہے۔ مقدمہ اسلام آباد منتقل کرنے کی سمری چیئرمین نیب کے پاس زیر غور ہے ۔نیب نے ملزمان کو ضمانت دینے کی مخالفت کر دی۔طحہ رضا کے وکیل نےموقف اپنایا کہ بے گناہ ہے۔ جس پر عدالت نے قرار دیا کہ یہ فیصلہ تو ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے۔ملزم بے قصور ہوا تو چھوٹ جائے گا۔اگر کیس اسلام آباد منتقل ہوا تو ہائیکورٹ درخواست کرنے کی کا مجاز نہیں ہوگی ۔
٭٭٭٭٭