کابل(امت نیوز)غیرملکی فوج کی حمایت افغان صدر اشرف غنی کو مہنگی پڑ گئی۔ننگر ہار میں جلسے کے دوران ہنگامےکے باعث انتخابی اجتماع چھوڑ کرجانا پڑا۔ امریکی حملوں میں بیگناہ شہریوں کے جاں بحق ہونے پر ہلمند میں بھی سیکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا اور افغان صدر اور این ڈی ایس کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ امن مذاکرات اور طالبان کے خلاف رائے عامہ ہموار کنے کی کوشش میں ناکامی پر اشرف غنی نے خود کو صدارتی محل تک محدود کر لیا اور لویہ جرگہ بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔طالبان نے کابل، قندھار یا ننگرہار میں دفتر کھولنے کی حکومتی پیشکش مسترد کر دی۔ دوسری جانب قائم مقام امریکی وزیر دفاع پیٹرک شیناہان اچانک افغانستان پہنچ گئے۔انہوں نے نیٹو اور امریکی فوج کے اہم کمانڈروں سے ملاقات کی۔ پیٹرک شیناہان انخلا کے حوالے سے ٹرمپ کو رپورٹ پیش کرینگے ،جبکہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد5 ملکوں کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابقافغانستان کے صوبےننگر ہار میں صدر اشرف غنی کے انتخابی جلسے کے دوران مشتعل افراد نے ہنگامہ کیا ،جس کے باعث افغان صدر کو اجتماع چھوڑ کر جانا پڑا۔مشتعل افراد نے اشرف غنی کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔ قبل ازیں خطاب میں اشرف غنی نے کہا کہ وہ افغانستان میں باوقار اوردیرپا امن لانا چاہتے ہیں۔انہوں نے طالبان کو افغانستان میں اپنا دفتر کھولنے کی پیش کش بھی کی اور کہا کہ افغان حکومت طالبان کو کابل، قندھار یا ننگرہار کہیں بھی دفتر اور سیکورٹی دے سکتی ہے۔ہلمند میں بھی سیکڑوں افراد نے بیگناہ شہریوں پر امریکی فضائی حملوں کے خلاف احتجاج کیا اور افغان حکومت اور خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے خلاف نعرے لگائے۔صوبائی کونسل کے چیئر مین عطا اللہ افغان نے مظاہرین سے خظاب میں کہا کہ ہم صدر غنی اور این ڈی ایس چیف معصوم ستنکزئی کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ حملے رکوائیں۔صورتحال اب برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔ امن مذاکرات اور طالبان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں ناکامی پر اشرف غنی نے خود کو صدارتی محل تک محدود کر لیا اور لویہ جرگہ بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مفاہمتی عمل کے حوالے سے 2002 جیسا لویہ جرگہ بلایا جائے ،تاکہ دنیا افغان عوام کی حقیقی آواز سن سکے۔ اشرف غنی نے کہا کابل عمل کے سلسلےمیں اگلا اجلاس آئندہ ماہ ہوگا اور اس میں افغانستان میں امن کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیاجائے گا۔ ہم کسی ایک طاقت پر ہمیشہ انحصار نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہوگا۔انہوں نے کہا اجلاس میں افغان مہاجرین کی واپسی پر بھی بات ہوگی ،جو امن کے لئے اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر فریقوں میں طالبان کسی بھی چیز پر بات کر سکتے ہیں۔ماسکو میں افغان سیاستدانوں کو طالبان سے بات چیت کا اختیارنہیں تھا۔طالبان نے افغانستان میں دفتر کھولنے کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عالمی براری قطر دفتر کو قبول کرے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ابھی افغانستان میں دفتر کھولنے کی پوزیشن میں نہیں ،تاہم اگر مستقبل میں ایسا کرنا پڑا تو وہ صرف کابل میں دفتر کھولیں گے۔افغان صدر کی اصل بات سے ہٹ کر کی گئی پیشکش امن کے لیے جاری جدوجہد کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ دوسری جانب قائم مقام امریکی وزیر دفاع پیٹرک شیناہان پیر کے روز اچانک دورے پر افغانستان پہنچ گئے۔ کابل میں انہوں نے نیٹو اور امریکی افواج کی اعلیٰ ترین کمان سے ملاقات کی اور صدر اشرف غنی سے بھی ملنے کی اطلاعات ہیں۔ پیٹرک شیناہان امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ہیں اور وہ زندگی میں پہلی بار افغانستان گئے ہیں۔اپنے ساتھ جانے والےمیڈیا سے گفتگو میں شینا ہان نے کہا کہ امن مذاکرات میں افغان حکومت کی شمولیت اہم ہوگی۔افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے خود کرنا ہے۔ مجھے وائٹ ہائوس سے امریکی فوجی کی واپسی کے آرڈر ابھی نہیں ملے۔ ان کے دورے کا مقصد کمانڈروں سے زمینئ صورتحال معلوم کر کے ٹرمپ کو رپورٹ دینا ہے۔ علاوہ ازیں افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف پندرہ صوبوں میں امریکی فوج کی مدد سے آپریشن جاری ہیں اور دبائو میں اضافے کے لئے حملے بڑھائے جائینگے۔وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ تین ہفتے میں دس اہم طالبان کمانڈر جاں بحق ہو چکے ہیں اور داعش کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان کرنل ڈیوڈ بٹلر کے مطابق امن معاہدے تک پہنچنے تک طالبان پر حملے جاری رہیں گے۔افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ طالبان افغان حکومت سے با معنی بات چیت نہیں چاہتے ،بلکہ ان کامقصد صرف رعایتیں حاصل کرنا ہے۔ وزارتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ امن مذاکرات میں شریک فریقین کو کچھ لچک دکھانی چاہئے۔ دوسری جانب امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد 10 فروری سے 28 فروری تک 5 ممالک کے دورے پر روانہ ہوگئے۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق زلمے خلیل زاد بیلجیئم، جرمنی، ترکی، قطر، افغانستان اور پاکستان کا دورہ کریں گے اور یہ دورہ افغان امن عمل کے لیے جاری کوششوں کا حصہ ہے۔ زلمے خلیل زاد اپنے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ ختم کرنے اور فوج واپس بلانے کا اعلان کرچکے ہیں اور اس سلسلے میں زلمی خلیل زاد افغان طالبان سے مذاکرات اور اتحادیوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔زلمے خلیل زاد مشرق وسطیٰ اور یورپ کا دورہ مکمل کر کے واشنگٹن پہنچے ہی تھے کہ انہیں مزید ممالک کے دوروں پر بھیج دیا گیا ہے۔