سرینگر/نئی دہلی(امت نیوز/ مانیٹرنگ ڈیسک)پلوامہ حملے کے بعد بھارت بھر میں کشمیریوں پرعرصہ حیات تنگ ہو گیا۔انتہا پسند پولیس کی موجودگی میں ہجوم کی صورت کشمیریوں پر حملے کر رہے ہیں ۔ بی جے پی حکومت والے ہریانہ و اترا کھنڈ میں کشمیریوں کو تعلیمی اداروں،ملازمتوں سے نکالنے و گھر خالی کرانےکے درجنوں واقعات سامنے آ چکے ہیں ۔بھارتی پنجاب میں پھنسے 2000 سے زائد افراد نے بھٹنڈا کی مکہ مسجد میں پناہ لینی شروع کر دی ہے ۔کشمیریوں اور ان کی املاک پر حملوں کے خلاف اتوار کو مقبوضہ کشمیر بھرمیں مکمل ہڑتال ہوئی۔بھارتی فوج نے پلوامہ میں گھروں میں گھس کر مزید16نوجوان گرفتار کر لئے۔پاکستان کیخلاف جنگی جنون کو ہوا دینے کی کوششیں بھارتی میڈیا کے مضحکہ خیز دعووں،کانگریس کی جانب سے مودی حکومت پر پلوامہ میں ملوث ہونے کے الزامات کے باعث دم توڑنے لگی ہیں ۔تفصیلات کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد بھارت بھر میں کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ ہو گیا ۔انتہا پسند پولیس کی موجودگی کے باوجود ہجوم کی صورت میں کشمیریوں کو مارنے پیٹنے لگے ہیں ۔بی جے پی حکومت والی ریاستوں ہریانہ ور اتر کھنڈ میں کشمیریوں کو تعلیمی اداروں و ملازمتوں سے نکالنے اور گھر خالی کرانےکے درجنوں واقعات سامنے آ چکے ہیں ۔ اتوار کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک ہجوم نے ایک کشمیری مسلمان کو گھیر لیا اور اسے پولیس کی موجودگی میں بد ترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا ۔مقبوضہ کشمیر کے ہندو اکثریتی علاقے جموں کے حساس علاقے میں رہنے والے مسلمانوں اور پھنسے ہوئے کشمیری مسافروں نے انتہا پسندوں کے حملے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے قریبی مشرقی پنجاب کے شہر بھٹنڈا کی مکہ مسجد میں پناہ لینے کی کوششیں شروع کر دی ہیں ۔اب تک 2000سے زائد کشمیری مکہ مسجد میں پناہ گزین ہیں اورمزید کشمیری مسلمان بھی یہیں کا رخ کررہے ہیں ۔بی جے پی حکومت والی ریاست ہریانہ کے ضلع انبالہ کے ایک گاؤں کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے ،جس میں ایک سرپنچ کو کشمیریوں کو کرائے پردی گئی رہائش گاہیں خالی نہ کرانے والوں کو غدار تصور کرنے کی دھمکی دیتے سنا جاسکتا ہے ۔اس ویڈیو سے انبالہ میں مقیم کشمیری طلبہ خوف و ہراس کا شکار ہو گئے ہیں اور اب تک 6 کشمیری طلبہ کو انبالہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں منتقل کیا جاچکا ہے ۔بھارت کی ایک دوا ساز کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار انوشل سکسینا نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں فخر سے کمپنی کے متعدد کشمیری ملازمین کو برطرف یا معطل کر نے کا اعتراف کیا ہے ۔اتر کھنڈ کے دارالحکومت ڈیرہ دون میں کشمیری طلبہ کو انتہا پسند ہندو گروپوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ بنگلور میں خود کش بمبار عادل ڈار کے حق میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے طالبعلم پر غداری کا مقدمہ درج ہے ۔ڈیرہ دون میں زیر تعلیم کشمیری عاقب احمد کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد مالک مکان نے اپنے گھر پر حملے کے ڈر سے اسے اور ایک اور طالبعلم کو کمرہ خالی کرنے کو کہا ہے ۔ڈیرہ دون میں ہی مقیم وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ ہم کہاں جائیں ۔انتظامیہ کو ہمیں تحفظ دینا چاہئے ۔ بھارتی فوج پر کشمیری مجاہدین کے حملوں کے حق میں سوشل میڈیا پر اظہار خیال کے الزام میں سماج وادی پارٹی کے2رہنماؤں سمیت 5 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ آسام کے شہر گوہاٹی میں ایک خاتون پروفیسر پیپری بینر جی کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی مظالم کو سوشل میڈیا پر ذکر کرنے پر معطل کر دیا گیا ہے جبکہ انتہا پسندوں نے اسے سوشل میڈیا پر عصمت دری کی دھمکیاں بھی دی گئیں ۔ روی پرکاش نامی سماج وادی پارٹی کے لیڈرکو یوپی میں پکڑا گیا ۔ ماؤ اضلاع سے گرفتار افراد میں 11ویں کا طالبعلم،کشمیری نوجوان عابد ملک اور سماج وادی پارٹی کا مقامی رہنما پرکاش موریہ اور محمد اسامہ کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ۔ادھربھارت میں کشمیری مسلمانوں اور ان کی املاک پر حملوں کیخلاف تاجروں کی اپیل پر اتوار کو مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کے موقع پر بازار مکمل بند رہے ۔مقبوضہ وادی میں مسلسل تیسرے روز بھی کرفیو نافذ رہا۔سڑکوں پرقابض بھارتی فوجی گشت کرتےرہے ۔جنوبی ضلع پلوامہ میں فوج نے مزید 16بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو گھروں میں گھس کر پکڑ لیا ۔ مقامی افراد کے مطابق بھارتی فوجی رات کے وقت گھروں پر چھاپے مار کر نہ صرف نوجوانوں کو گرفتار کررہے ہیں بلکہ بلا لحاظ جنس و عمر اہلخانہ کو مار پیٹ کا بھی نشانہ بناتے ہیں۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے بھارت بھر میں کشمیری مسلمانوں پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا انتہا پسند ہندؤوں کا پرانا وتیرہ ہے۔ 1947 میں انہی لوگوں نے3 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو جموں میں شہید کرکے آبادی کا تناسب بدلا۔جموں میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بے شرمی کی انتہا ہےلیکن قابض انتظامیہ کی حمایت اور مدد اسے مزید قبیح بنارہی ہے۔حملوں کے پیچھے بھارتی حکمرانوں کا ہاتھ صاف نظر آرہا ہے۔ ہزاروں بھارتیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مصیبت زدہ کشمیریوں کو پناہ کی پیشکش کے باعث مودی حکومت نے ڈرامہ بازی کرتے ہوئے تمام ریاستوں کو ’’فرقہ وارانہ‘‘ ہم آہنگی یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے ۔ کرکٹ کلب آف انڈیا میں لگی ہوئی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی بطور کرکٹر لگی تصویر کو اتارنے ، بھارتی ٹی وی چینل ڈی اسپورٹس کو پاکستان سپر لیگ کے میچز دکھانے سے روکنے ،پاکستانی گلوکاروں کے گانے بھارتی میوزک کمپنیوں کی سائٹس سے ہٹوانے کے باوجود بھارت کی حکومت جنگی جنون کو ہوا دینے میں ناکام ہو گئی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ بھارتی میڈیا کے مضحکہ خیز دعوےاور بھارتی اپوزیشن کانگریس کی جانب سے مودی پر پلوامہ حملے کے پیچھے ہونے کا الزام ہے ۔حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے عادل احمد ڈار کے بھارتی حراست میں ہونے کامعاملہ سامنے آنے کے بعد انڈیا ٹی وی نامی چینل نے مضحکہ خیز دعوے میں عبدالرشید غازی کو نہ صرف پلوامہ حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیدیا ،بلکہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں جیش محمد کا سربراہ بھی قرار دے ڈالا اور دعویٰ کیا کہ ان کے ٹھکانہ کا پتا چل گیا۔عبدالرشید غازی نے حال ہی میں 18 سے 23 سال عمر کے 70 نوجوانوں پر مشتمل گروہ بنایا اورانہیں افغانستان میں طالبان نے ٹریننگ دلائی تھی ۔2007میں لال مسجد آپریشن کے دوران جاں بحق ہونے والے غازی عبدالرشید کو حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دینے کے مضحکہ خیز دعوےپر بھارتی حکومت و میڈیا کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا جا رہا ہے۔دریں اثنا بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما ونو امپارا نے بی جے پی کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ پلوامہ حملہ مودی حکومت نے خود کرایا اور الیکشن جیتنے کیلئے درجنوں فوجی مروا دئیے۔ہر الیکشن قریب آتے ہی بی جے پی ایسی ہی حرکتیں کرتی ہے۔2002کے عام انتخابات سے پہلے گودھرا میں حملے کرائے تھے ۔علاوہ ازیں بھارتی فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ پلوامہ میں بھارتی فوج پرحملے میں بھارتی فوج کا750پاؤنڈ بارود استعمال ہوا۔یہ ممکن نہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں بارود در اندازی سے لایا جائے۔ شاید جموں شاہراہ کو چوڑا کرنے اور پہاڑی راستوں کو اڑانے کیلئے جمع بارود حملے کیلئے استعمال ہوا۔ پلوامہ میں بھارتی فوج پر حملہ اسی شاہراہ پر ہوا ۔حملے کی ویڈیو میں نظر آنے والے مبینہ بمبار کا گھر اس مقام سے محض 6کلومیٹر دور ہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق پلوامہ حملے نے کشمیر پر مودی پالیسی کی کامیابی کے حوالے سے سوالات اٹھا دیے ہیں جہاں لاکھوں بھارتی تعینات ہیں۔ بھارتی فوج کی تعیناتی سے کشمیریوں کی روزمرہ زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے پروفیسر ہیپی مون جیکب کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کی ایک پوری نسل کا بھارت سے متنفر ہونا دہلی کی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔2013میں جب مودی اقتدار میں آئے تو صرف چند ایک کشمیری ہی مسلح جدوجہد سے وابستہ تھے،اب صرف اسلامی مدارس ہی نہیں بلکہ انجینئرنگ جامعات کے فارغ التحصیل اور ملازمت پیشہ نوجوان بھی تحریک آزادی کا حصہ ہیں۔بھارتی حکومتوں نے کبھی بھی کشمیریوں کو اعتماد میں لینے یا ان کے ساتھ با مقصد اتحاد کی کوشش نہیں کی۔ 2018 میں مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت ختم کر کے اپنا راج قائم کر دیا اور مقامی پارٹی سےاپنا اتحاد ختم کر دیا تھا۔