اسلام آباد/کراچی(نمائندگان امت/ اسٹاف رپورٹر/خبر ایجنسیاں)وفاقی حکومت کی جانب سے جیش محمد سمیت کالعدم تنظیموں کیخلاف کریک ڈاؤن میں 68 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ،جن میں مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبدالرؤف اوربیٹا حماد اظہر شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق کارروائی 2 ہفتے تک جاری رہے گی ۔ جیش محمد کے سربراہ کی گرفتاری کیلئے سمری بھی وزیراعظم ہاؤس بھجوادی گئی ہے، تاہم انہیں حراست میں لینےیا نہ لینے کا تعین وزیر اعظم عمران خان ہی کریں گے۔اس ضمن میں آئندہ 24 گھنٹے اہم ہیں۔اسی دوران ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے حافظ محمد سعید کی تنظیم پر چوتھی بار پابندی لگادی گئی۔ وزارت داخلہ نے جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔سفارتی ذرائع کے مطابق اقدام ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں اٹھایا گیا ہے ،تاہم ٹائمنگ سے بھارت کو فائدہ ہوا ہے،جس نے اسی دوران ایک ڈوزئیر پاکستان بھجوایا ہے۔ بھارتی میڈیا نے بھی اسے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے کہ مودی سرکارکے دباؤ پر پاکستان کارروائی کیلئے مجبور ہوا ہے۔ادھر پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پابندی کسی کے کہنے یا دباؤ پر نہیں لگائی گئی۔ اس کا فیصلہ جنوری میں ہوچکا تھا جس میں آرمی کی ان پٹ شامل تھی۔میجر جنرل آصف غفورکے مطابق 21 فروری کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے دونوں جماعتوں پر پابندی لگانے کی ہدایت کردی تھی۔تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے جیش محمد سمیت کالعدم تنظیموں کیخلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 68 افراد کو گرفتار کرلیاہے جن میں مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبدالرؤف اوربیٹا حماد اظہر شامل ہیں۔اسی دوران ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے حافظ محمد سعید کی تنظیم پر چوتھی بار پابندی لگادی گئی ۔ وزارت داخلہ نے جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔دوسری جانب جماعت الدعوۃ کے نائب صدر فیصل ندیم کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم پر پہلی بار عمران خان کی حکومت نے پابندی لگائی ہے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی اور نوازلیگ کے ادوار میں دو بار ہمیں کام سے روکا گیا ،جبکہ ایک بار واچ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ جماعت الدعوۃ پر پہلی بار11 دسمبر 2008 کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پابندی لگائی گئی تھی۔30 جنوری2017 میں دوسری بار جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو اس وقت پابندی کا سامنا کرنا پڑا ،جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔حافظ سعید دیگر رہنماؤں کےہمراہ تقریباً 10 نظربند رہے۔ تیسری بار صدراتی آرڈیننس کے ذریعے 12 فروری 2018 جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کوواچ لسٹ میں شامل کیا گیا۔چوتھی بار عمران خان کی حکومت نے باضابطہ طور پر کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا اور اس ضمن میں نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ۔ وزارت داخلہ نے انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت دونوں جماعتوں پرپابندی عائد کی اور شیڈول ون میں شامل کیا ہے۔ادھر پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پابندی کسی کے کہنے یا دباؤ پر نہیں لگائی گئی۔ اس کا فیصلہ جنوری میں ہوچکا تھا جس میں آرمی کی ان پٹ شامل تھی۔میجر جنرل آصف غفورکے مطابق 21 فروری کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے دونوں جماعتوں پر پابندی لگانے کی ہدایت کردی تھی۔یہ وقت اکٹھے ہونے کا ہے، اب پاکستان کا بیانیہ چلے گا اور پاکستان کو وہاں لے کر جائیں گے جہاں اس کا حق بنتا ہے۔ایف اے ٹی ایف پر عمل کرنے سے بھی فائدہ پاکستان کو ہی ہوگا۔ اس وقت جو خیالات میں اتفاق اور ریاست کا عزم ہے، تمام مسائل کے حل کی طرف جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں اور اس پر 2014 سے عمل جاری ہے،جب پلوامہ اور ایف اے ٹی ایف بھی نہیں تھا تاہم نیشنل ایکشن پلان پر جس طرح عملدرآمد ہونا چاہیئے تھا نہیں ہو سکا۔ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے فوج، سول آرمڈ فورسز اور پولیس مصروف رہی ،جبکہ فنڈز کے معاملات کی وجہ سے بھی کالعدم تنظیموں سے متعلق ایکشن کے تیسرے نکتے اور دیگر ایشوز پر کام نہ ہو سکا۔ایک سوال پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ڈوزیئر ملا، اس پر تحقیقات جاری ہیں اور ڈوزیئر کو متعلقہ وزارت دیکھ رہی ہے، اگر کوئی ملوث ہوا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔وزیراعظم نے وعدے پر عمل کرتے ہوئے دونوں افراد کو گرفتار کیا ہے، بھارت نے کوئی شواہد دیئے یا یہاں سے کچھ پتہ چلتا ہے تو ملک کے مفاد میں کریں گے۔قبل ازیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرمملکت داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ کارروائی کسی دباؤ کے تحت نہیں کی گئی۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن 2 ہفتے تک جاری رہے گا۔ حراست میں لیےگئےافرادسےتفتیش کی جائے گی، اگرکچھ ثابت ہوا تومزیدکارروائی کی جائےگی۔ اس موقع پر وہاں موجود سیکرٹری داخلہ اعظم سلطان نے تصدیق کی کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے فراہم کردہ ڈوزیئر میں مفتی عبدالرؤف اور حماد اظہر کے نام شامل ہیں تاہم ان کے خلاف شواہد نہیں دیے گئے۔ کچھ لوگوں کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔نام نہیں بتائےجاسکتے، تحقیقات کی جا رہی ہیں،ثبوت ملےتومزیدکارروائی ہوگی، ثبوت نہ ملےتو حراست میں لیے گئے افراد کی نظر بندی ختم کر دی جائےگی،شواہدملنے پرحکومت کے پاس کسی بھی ادارے کو تحویل میں لینے کے اختیارات ہیں۔ کسی تنظیم کے اثاثہ جات کوقبضےمیں لینا پڑا تو وہ بھی کریں گے۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق سول و عسکری قیادت کا ماننا ہے کہ مختلف گروپ پاکستان کے مفاد میں نہیں اور یہ کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ گروپ اگر پہلے مفید تھے تو اب نہیں ہیں، ان گروپوں کو پہلے ہر کوئی اثاثہ سمجھتا تھا لیکن موجودہ حالات میں یہ بہت بڑا بوجھ بن گئے ہیں ۔اس لیے پاکستان کے پاس اس وقت ان کے خلاف کارروائی کے سوا کوئی چوائس نہیں۔ذرائع کا کہنا ہے ساری دنیا پاکستان کے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف ہے اور بار بار پاکستان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، دنیا کے اندر یہ قابل قبول نہیں اور پاکستان ان کو ساتھ نہیں چلاسکتا، فوج اور حکومت اس حوالے سے ایک ساتھ ہیں کیونکہ پاکستان کو ایسے ماحول سے باہر نکلنا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ ان گروہوں سے بات کرکے ان کی پراپرٹیز تحویل میں لی جا رہی ہیں جنہیں حکومت خود چلائے گی، ان کے اساتذہ اور ورکرز کو فلاحی کاموں کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔