کراچی(اسٹاف رپورٹر)جامعہ کراچی کے نااہل ناظم امتحانات نے بی کام کی امتحانی کاپیوں کی غلط کوڈنگ کی وجہ سے طلبہ فیل ہونے کا ملبہ کالجز کے تدریسی نظام پر ڈال دیا ۔بی کام کے 5 مضامین کی کوڈیفیکیشن مینوئل پنچنگ مشین کے ذریعے انسٹیٹیوٹ آف ہیلو فائٹ کے اساتذہ، ریسرچرز سے کرائی گئی، کوڈنگ تو ہوگئی ،تاہم ڈی ،کوڈنگ نہ ہونے اور کیری اوور امتحانی نمبر کو اٹھائے بغیر نتیجہ جاری کر کے طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگایا دیا ہے ۔ کامرس کالج کے اساتذہ نے 70 لاکھ روپے کی کل رقم میں سے صرف 17 لاکھ روپے وصول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ دوسری جانب بی کام کے 4 پرچوں کی اسسمنٹ کے لئے امتحانی کاپیاں گھروں پر روانہ کردی گئی۔ذرائع کے مطابق جامعہ کراچی کی جانب سے دعوی کیا جارہا ہے کہ بی کام کی امتحانی کاپیوں کی کوڈیفیکیشن جدید کمپیوٹرائز سسٹم کے تحت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق جامعہ کراچی کے پاس کوڈیفیکیشن کے لئے کوئی نظام موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوڈیفیکیشن کے لئے نوٹیفائی کمیٹی قائم کی گئی ،جبکہ کوڈیفیکیشن کا سارا عمل ناظم امتحانات عرفان عزیز جس انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھتے ہوئے وہیں کے اساتذہ اور ریسرچرز سے کرائی گئی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال بی کام کے 5 پرچوں کی کوڈیفیکیشن مینوئل پنچنگ مشین کے ذریعے کی گئی جن میں بی کام سال اول کے شماریات اور پرنسپل آف اکاؤنٹنگ،اسی طرح بی کام سال دوئم کے 3 پرچوں کی کوڈنگ کی گئی جن میں ایڈوانس اکاؤنٹنگ،کاسٹ اکاؤنٹنگ اور منیجمنٹ شامل ہیں،ذرائع کا کہنا ہے کہ نااہل ناظم امتحانات نے کوڈنگ کے لئے کسی سیریز سیریئل کے بجائے نمبرنگ کا استعمال کیا جس سے کوڈنگ کو ڈی کوڈ کرنے میں نا تجربہ کار ہیلوفائٹ کے اساتذہ اورریسرچر ناکام ہوگئے،معلوم ہوا ہے کہ کوڈیفیکیشن کا نظام واضح موجود ہے اور جو کراچی میٹرک و انٹر بورڈ زمیں رائج ہے،معلوم ہوا ہے کہ کوڈیفیکیشن کے لئے سربراہ کی جانب منظوری دی جاتی ہے جس میں سینیئر اساتذہ اور ماہرین نامزد کئے جاتے ہیں اور واضح کیا جاتا ہے کہ کس استاد کے پاس کن مضامین کی کتنی امتحانی کاپیاں ہیں جو وہ کوڈیفیکیشن کے لئے اپنی سیریز سیریئل نمبر کا استعمال کرتے ہیں اور کوڈیفیکیشن کرتے وقت ہر امتحانی کاپی کے ساتھ اپنے پاس ریکارڈ محفوظ کرلیتے ہیں ۔کس امتحانی کاپی،رول نمبر کو کیا کوڈ دیا گیا ،تاہم جامعہ کراچی کے ناظم امتحانات تمام قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرکے ہیلوفائٹ کے اساتذہ،ریسرچر سلمان گلزار و دیگر سے کرا کر طلبہ کا مستقبل داؤپر لگایا۔ معلوم ہوا ہے کہ بی کام کے گزشتہ امتحان 24 دسمبر 2017 کو شروع ہوئے تھے تاہم ان کا نتیجہ 10 ماہ کی تاخیر کے بعد 17 اکتوبر 2018 کو جاری کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ناقص کوڈنگ سے 4 ہزار 700 سے زائد طلبہ کا مستقبل داؤپر لگا ذرائع نے بتایا ہے کہ جامعہ انتظامیہ کے سینٹرالائزڈ اسسمنٹ کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں،ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بی کام سال اول کے 3 مضامین انگریزی،اسلامک اسٹڈیز،پاکستان اسٹڈیز اور بی کام سال دوئم کے اردو مضمون کی امتحانی کاپیاں اسسمنٹ کے لئے منظور نظر اساتذہ کے گھروں پر روانہ کردی گئی ہے جن کی کوئی کوڈنگ بھی نہیں کی گئی،جبکہ رواں سال صرف بی کام کے 2 پرچوں کی کوڈنگ کی جائے گی جن میں بی کام سال اول کا پرنسپل آف اکاؤنٹنگ اور بی کام سال دوئم کا ایڈوانس اکاؤنٹنگ شامل ہے۔جامعہ کراچی انتظامیہ نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ طلبہ کی بی کام کے امتحانات میں کامیابی کی شرح 2016 ءمیں 21 فیصد،2017 ءمیں 17 فیصد اور 2018 ءمیں 13 فیصد رہ جانے کی بنیادی وجہ تواتر کے ساتھ فیل ہونے والے پرانے طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔پرائیوٹ امتحانات سے قطعہ نظر ریگولر طلبہ کے مسلسل ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ کالجوں میں تدریس کا ناقص نظام ہے جس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ یا درہے کہ امتحانی کاپیوں کی جانچ کالج اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور کامرس کی بورڈ آف اسٹڈیز سے ہی ممتحن منتخب کئے جاتے ہیں جس سے شعبہ امتحانات کی جانب سے فیل یا پاس کرنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی نتائج تبدیل کرنے کا کوئی اختیارہے۔کامرس پروفیسرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری فرحان قاضی نے کوڈنگ سے متعلق ناظم امتحانات پر اقرباپروری اور نااہلی جیسے بے بنیاد الزامات لگائے نیز ان کو کوڈنگ سے نابلد قراردیا جو حقائق کے منافی ہے۔جامعہ کراچی اس امر کی وضاحت بھی ضروری سمجھتی ہے کہ گذشتہ برس کالج اساتذہ کی تنظیم سپلا کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے امتحانات میں شفافیت کے عمل کو مزید بہتر بنانے کے لئے کوڈنگ کا عمل شروع کیا ۔اساتذہ کے ایک مخصوص گروہ کی بڑھتی ہوئی من مانیوں اور نتائج میں تبدیلیوں کی کئی شکایات ناظم امتحانات کے دفتر میں موصول ہوئیں جس کے بعد شیخ الجامعہ کی ہدایات پر ناظم امتحانات نے مختلف شعبہ جات سے اساتذہ پر مشتمل ایک ٹیم تیار کی جس نے کوڈنگ کے عمل میں بلا معاوضہ مددکی اور سارانظام جدید کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت تیارکیا گیا جس میں شعبہ امتحانات کے کمپیوٹر سے واقف عملے کی خدمات حاصل کیں جو سالہا سال سے ٹیبولیشن کا کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔اس سارے عمل میں کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔تاہم کالج اساتذہ بالخصوص کامرس پروفیسر ز کا مسلسل اصرار تھا کہ ان کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے جس سے شفافیت متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔واضح رہے کہ کوڈنگ کے عمل کے لئے جامعہ کراچی ایکٹ 1972 ءمیں کوئی مخصوص طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا اور تمام معاملات ناظم امتحانات کی صوابدید پر چھوڑدیئے گئے ہیں،واجبات کی ادائیگی کے حوالے سے جامعہ کے مقروض ہونے اور ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس پر بدنیتی کے الزامات بھی درست نہیں۔دراصل طلبہ کے امتحانی اخراجات کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم کا بیشتر حصہ ان کی فیس سے حاصل ہوتا ہے جس میں سے ایک خطیر رقم فرنیچر،ٹینٹ اور ویجیلنس اسٹاف پر صرف ہوجاتی ہے اور اس کے بعد جو رقم بچ جاتی ہے اس سے نئے مالی سال کے آغاز میں اساتذہ کو کاپیوں کی جانچ کا مشاہرہ اداکردیا جاتاہے اور برسہابرس سے یہی طریقہ کار رائج ہے،واضح رہے کہ یہ مشاہرہ اساتذہ کی باقاعدہ تنخواہ کا حصہ ہر گز نہیں البتہ ممتحن حضرات کیلئے اس کی منظوری سنڈیکیٹ سے کروائی جاتی ہے اور ہرسال اس کی باقاعدہ اجازت شیخ الجامعہ عنایت کرتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ محترم اساتذہ کرام اس مشاہرے کی عدم ادائیگی کو جواز بناکر امتحانی کاپیوں کی جانچ سے انکاری ہیں ،جس سے کراچی کے طلبہ کا نقصان ہوگا۔ اساتذہ کے 70 لاکھ روپے میں سے تقریباً نصف رقم کے چیک اکاؤنٹ سیکشن میں تیار پڑے ہیں ،تاہم کامرس پروفیسر ز یکمشت ادائیگی پر مصر ہیں۔یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سیکریٹری بورڈ ز اینڈ یونیورسٹیز کی ہدایات کے مطابق امتحانات ختم ہونے کے 120 ایام کے اندر ہی نتائج کا اجراءضروری ہے جو کہ امتحانی کاپیوں کی جانچ سے مشروط ہے۔کسی بھی قسم کی تاخیر پر جامعہ کراچی کے ناظم امتحانات شیخ الجامعہ کو شکایتی خط کے ذریعے مطلع کرسکتے ہیں ۔اس امر کو بھی واضح کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی امتحانی عمل جامعہ کے ایکٹ کے برخلاف نہیں کیا جائیگا۔‘‘امت ’’سے گفتگو کرتے ہوئے کامرس پروفیسرز ایسو سی ایشن کے جنرل سیکریٹری فرحان قاضی کا کہنا تھا کہ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ کوڈیفیکیشن تمام پرچوں کی جائے،کوڈیفیکیشن صرف بی کام کے پرچوں میں کیوں کی جاری ہے،بی اے،ایم اے دیگر میں کوڈنگ کیوں نہیں کی جاتی؟ ان کا کہنا تھاکہ اپنی نااہلی کا ملبہ اساتذہ پر گرانے اور اساتذہ پر الزامات سے متعلق آج اجلاس طلب کرلیا ہے اور اس کے بعد ہی وہ اپنی ایسو سی ایشن کے موقف سے آگاہ کریں گے۔
٭٭٭٭٭