واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کےخلاف استعمال ہورہی ہے،طالبان اسلام آباد کی مدد سے مذاکرات کی میز پر آئے امریکی سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ میں امریکی جنرل نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے ہیں جو پاکستان میں حملے کرتی ہیں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی نہ صرف افغانستان کے استحکام کیلئے خطرہ ہے بلکہ یہ تنظیموں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی بھی بڑی وجہ ہیں،دہشت گرد تنظیمو ں کی جانب سے سرحد پار حملے پاک افغان سرحد پر حالات کو خراب کررہے ہیں ، انہوں نےکہا کہ امریکا کی کوشش ہے کہ افغان امن اور علاقائی سلامتی کے لئے خطےکےممالک کے ساتھ مل کر کام کرے اور انھیں افغانستان میں امن واستحکام کےلئے کام کرنے پر آمادہ کیا جائے،امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے امریکی جنرل کاکہنا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کےلئے اسلام آبادنے اہم کردار ادا کیا اور زلمے خلیل زاد اور طالبان کی بات چیت کے لئے مثبت اقدامات اٹھائے تاہم اس کے ساتھ انھوں نے زور دے کر یہ بات کہی کہ مذاکرات کےمخالف طالبان رہنمائوں کے خلاف امریکا کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے،امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان افغانستان میں اہداف کے حصول اور تنازع کے خاتمے کے لئے اپنا کردار جاری رکھتا ہے تو امریکا کی بھی یہ خواہش ہوگی کہ پاکستان کی مدد کی جائے،علاقائی صورتحال کے حوالے سے امریکی فوج کے کمانڈر نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے امریکا کے لئے اہم ملک رہا ہے اور امداد کی معطلی کے باوجود پاک امریکا فوجی تعاون اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ملک باہمی تعلقات میں چیلنجز کے باوجود تعلقات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں،جنرل جوزف نے کہا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے،روس،چین،بھارت اورایران سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں جو علاقے میں امریکی مفادات کےحوالےسے اس کی اہمیت کو دوچند کردیتےہیں اور واشنگٹن ہمیشہ پاکستان کو اہمیت دیتا رہے گا۔ ایوان نمائندگان کی کمیٹی میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی پر پاکستان کی سنجیدگی سے متعلق سوالات پر جنرل جوزف کا کہنا تھا کہ ایسے مثبت اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان نے شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ یہ واضح ہے کہ وہ مزید اقدامات کر سکتا ہے اور ہم نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ یہ اقدمات جاری رکھیں۔امریکہ ایک عرصے سے پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا آیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء کے اوائل میں پاکستان کی طرف سے افغانستان میں برسرِ پیکار شدت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف مؤثر کاررائی نہ کرنے پر پاکستان کی امداد بھی معطل کر دی تھی۔ جنرل ووٹل کے بیان پر تاحال پاکستان کی کسی عہدیدار کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن پاکستانی حکام بارہا یہ کہہ چکے ہیں پاکستان نے بلاتفریق غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے۔پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ اس کی حدود میں دہشت گردوں کی کوئی ایسی پناہ گاہ موجود نہیں جو کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ ہو۔جنرل ووٹل کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب جمعرات کو پاکستانی حکام نے ملک بھر میں میں کالعدم تنظیموں کے تحت کام کرنے والے مدارس اور فلاحی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا۔پاکستان کی طرف سے کالعدم تنظیموں کے خلاف ملک بھر میں کارروائی ایسے وقت کی جارہی ہے جب گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم ‘جیشِ محمد’ کی جانب سے قبول کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کرتے ہوئے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانوں سے محروم کرے اور مالی وسائل تک اُن کی رسائی روکے۔پاکستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی سے متعلق ایک سوال پر، امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ ان اقدامات پر توجہ دے رہا ہے، اور یہ کہ ’’ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس اور ناقابل تنسیخ کارروائی کی جائے، جس کے نتیجے میں آئندہ حملے نہ کیے جا سکیں اور جس سے علاقائی استحکام کو فروغ ملے‘‘۔معاون ترجمان نے یہ بیان جمعرات کے روز معمول کی روزانہ پریس بریفنگ کے دوران اس سوال کے جواب میں کہی۔صحافی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے مختلف دہشت گرد تنظیموں کے 44 افراد کو گرفتار کیا ہے، جب کہ ماضی میں پاکستان نے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی تھی؛ اس اقدام کو امریکہ کس نظر سے دیکھتا ہے، آیا یہ قابل بھروسہ اور دیرپا اقدام ہے۔رابرٹ پلاڈینو نے کہا کہ ’’ہم پاکستان سے یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فرائض کی پاسداری کرتے ہوئے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانوں سے محروم کیا جائے اور مالی وسائل تک اُن کی رسائی روکی جائے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں معاون ترجمان نے کہا کہ ’’مسعود اظہر اور جیش محمد کے بارے میں امریکہ کے خیالات کا سب کو علم ہے‘‘۔اُنہوں نے کہا کہ ’’جیش محمد اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا گیا گروپ ہے، جو متعدد دہشت گرد حملوں کا ذمےد ار ہے، جو علاقائی استحکام کے لیے خطرے کا باعث ہے۔اُن سے پوچھا گیا تھا کہ نیو یارک سٹی میں اقوام متحدہ کی عمارت سے موصول ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک نئی قرارداد پیش کی ہے جس میں مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے کہا گیا ہے؛ جس پر وہ کیا کہیں گے۔ ترجمان نے کہا کہ ’’جہاں تک اقوام متحدہ کی تعزیرات سے متعلق کمیٹی کی جانب سے اس معاملے کو زیر غور لانے کا سوال ہے، یہ صیغہ راز کا معاملہ ہے، جس پر رائے زنی کرنا درست نہ ہوگا۔ تاہم، ترجمان نے کہا کہ ’’جہاں تک فہرست کو ’اپ ڈیٹ‘ کرنے اور اس کی درستگی کو یقینی بنانے کا سوال ہے، ہم تعزیراتی کمیٹی کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔ امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے اور گذشتہ چھ ماہ میں اس حوالے سے بہت پیشرفت ہوئی ہے۔ امریکی سینیٹ کی دفاعی امور کی کمیٹی ’ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی‘ کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے جنرل جوزف ووٹل نے جنوبی ایشا میں قیام امن اور استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گذشتہ چھ ماہ کے دوران جس قدر تعاون کیا ہے وہ اس سے پہلے اٹھارہ برس میں دکھائی نہیں دیا تھا۔ جنرل جوزف ووٹل کے مطابق پاکستان نے ’ذلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں معاونت کے لیے مثبت اقدامات کیے۔‘ تاہم سینیئر امریکی جنرل نے ان طالبان رہنماؤں کے خلاف زیادہ موثر اقدامات پر زور دیا جو مصالحت کی کوششوں میں تعاون نہیں کر رہے اور ایسے رہنماؤں کو گرفتار یا ملک سے نکالنے کے لیے ٹھوس کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ’اگر پاکستان، افغانستان کے تنازعے کے حل میں مثبت کراد ادا کرتا ہے تو امریکہ کہ پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ پاکستان کی مدد کرے کیونکہ خطے میں امن پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔