شفا کیلئے چودہ روحانی نسخے
حضرت عمران بن الحصینؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ ایک ناسور پھوڑے کے اندر بتیس برس مبتلا رہے ہیں۔ جو پہلو میں تھا اور چت لیٹے رہتے تھے۔ کروٹ نہیں لے سکتے تھے۔ بتیس برس تک چت لیٹے لیٹے کھانا بھی، پینا بھی عبادت کرنا بھی، قضائے حاجت کرنا بھی… آپ اندازہ کیجیے بتیس برس ایک شخص ایک پہلو پر پڑا رہے، اس پر کتنی عظیم تکلیف ہوگی؟ کتنی بڑی بیماری ہے؟
یہ تو بیماری کی کیفیت تھی، لیکن چہرہ اتنا ہشاش بشاش کہ کسی تندرست کو وہ چہرہ میسر نہیں، لوگوں کو حیرت تھی کہ بیماری اتنی شدید کہ بتیس برس گزر گئے، کروٹ نہیں بدل سکتے اور چہرہ دیکھو تو ایسا کھلا ہوا کہ تندرستوں کو بھی نصیب نہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت! یہ کیا بات کہ بیماری تو اتنی شدید اور اتنی ممتد اور لمبی چوڑی (کہ خدا کی پناہ مگر) آپ کے چہرے پر اتنی بشاشت اور تازگی کہ کسی تندرست کو بھی نصیب نہیں۔
فرمایا: جب بیماری میرے اوپر آئی، میں نے صبر کیا، میں نے کہا کہ رب کی طرف سے میرے لیے عطیہ ہے، رب تعالیٰ نے میرے لیے یہی مصلحت سمجھی، میں بھی اس پر راضی ہوں۔ اس صبر کا رب نے مجھے یہ پھل دیا کہ میں اپنے بستر پر روزانہ ملائکہؑ سے مصافحہ کرتا ہوں، مجھے عالم غیب کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ عالم غیب میرے اوپر کھلا ہوا ہے۔ تو جس بیمار کے اوپر عالم غیب کا انکشاف ہوجائے، ملائکہ کی آمدو رفت محسوس ہونے لگے، اسے کیا مصیبت ہے کہ وہ تندرستی چاہے؟ اس لیے تو بیماری ہزار درجے کی نعمت ہے۔
حاصل یہ کہ اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس نے تندرست کو تندرستی میں تسلی دی، بیمار کو کہا کہ بیماری رب تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، تو اگر اس میں صبر اور احتساب کرے گا، اس حالت پر صابر اور راضی رہے گا تو تیرے لیے درجات ہی درجات ہیں۔
پھر یہ بھی نہیں فرمایا کہ تو علاج مت کر، علاج بھی کر، دوا دارو بھی کر، مگر نتیجہ جو بھی نکلے، اس پر راضی رہ، اپنی جدوجہد کئے جا، باقی افعال خداوندی میں مداخلت مت کر، تیرا کام دوا کرنا ہے، تیرا یہ کام نہیں ہے کہ دوا کے اوپر نتیجہ بھی مرتب کردے کہ صحت ہونی چاہیے۔
یہ رب کا کام ہے تو اپنا کام کر، رب کے کام میں دخل مت دے۔ دوا دارو کر، مگر رب کی طرف سے جو کچھ ہوجائے، اس پر راضی رہ کہ جو کچھ ہورہا ہے، میرے لیے خیر ہورہا ہے۔ اس پر صبر کرو گے وہی بیماری ترقی درجات اور اخلاق کی بلندی کا ذریعہ بنتی جائے گی اس سے آدمی کی روحانی مقامات طے ہوں گے۔ تندرست کو روحانیت کے وہ مقامات نہیں ملتے جو بیمار کو ملتے ہیں تو بیمار، یوں کہے گا مجھے میرے بیماری مبارک مجھے تندرستی کی ضرورت نہیں۔ تندرستی میں مجھے یہ مقامات مل نہیں سکتے تھے جو بیماری میں ملے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭