نئی دہلی/اسلام آباد/لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/نمائندہ امت)بھارت میں 42پاکستانیوں کےقاتل ہندو دہشت گردوں کو کلین چٹ دے دی گئی۔بھارتی عدالتوں کاتعصب کھل کرسامنے آ گیا۔12 برس بعدسمجھوتہ ایکسپریس کیس کا متنازعہ فیصلہ سنا دیا۔دھماکوں سےسمجھوتہ ایکسپریس کی بوگیوں میں آگ لگانے والے سوامی آسیم آنندسمیت4مجرم بری کردئیے ۔پاکستانی خاتون کی گواہی کی درخواست مسترد کر دی گئی۔سانحے میں بھارتی فوج کا کرنل پروہت اور را ملوث تھی۔ٹرین میں پاکستانی شہریوں پرحملے کے لئے بم فراہم کرنے والے کرنل پروہت کو بھی3برس قبل رہا کیا جا چکا ہے۔ کیس میں درجنوں بھارتی سرکاری گواہ منحرف ہوئے۔4 مجرموں کی بریت پرپاکستان نےشدید احتجاج کیا ہے۔بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے سوال کیا گیا کہ شہدا کے خاندانوں کو کیا جواب دیا جائے گا؟فیصل آباد کے رہائشی شوکت علی کا کہنا ہے کہ فروری 2007 میں دہلی سے پاکستان واپسی پر سمجھوتہ ایکسپریس میں ان کے5 بچے زندہ جلےتھے۔ تفصیلات کے مطابق سمجھوتہ ایکسپر یس دھماکہ کیس میں 42 پاکستانیوں سمیت 68 افراد کے قتل میں نامزد 4 ہندو دہشتگردوں کو بھارتی عدالت نے بری کردیا۔12 برس بعد سنائے جانے والے متنازعہ فیصلے میں بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی خصوصی عدالت نے دھماکوں سے 2 بوگیوں میں آگ لگانے والے سوامی آسیم آنند، لوکیش شرما، کمل چوہان اور رجیندر چوہدری کو بری کرنے کاحکم دیا۔عدالت نے قرار دیا کہ این آئی اے چاروں کے خلاف ثبوت دینے میں ناکام رہی۔پاکستانی خاتون راحیلہ نے گواہی کیلئے درخواست جمع کرائی تھی، ان کے والد بھی سانحے میں شہید ہوئے تھے۔عدالت نے11 مارچ کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو راحیلہ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے بدھ کو سنا دیا گیا۔جج نے دعویٰ کیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کے پاکستانی عینی شاہدین کو عدالت میں حاضر ہونے کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن کو سمن جاری کردیئے گئے تھے،تاہم کسی کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔واضح رہے کہ بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ہندو انتہا پسند لیڈر سوامی آسیم آنند، سنیل جوشی، لوکیش شرما، سندیپ ڈانگے، رام چندرا کالاسنگرا، رجیندر چوہدری اور کمل چوہان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔سنیل جوشی کو 2007 میں قتل کردیا گیا تھا جب کہ رام چندرا اور سندیپ ڈانگے تاحال مفرور ہیں۔سوامی آسیم آنندمکہ مسجد اور درگاہ اجمیر شریف سمیت دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث تھا لیکن ان میں سے متعدد مقدمات میں بھی بری ہو چکا۔اس کا تعلق انتہا پسند ہندو تنظیم ابھینوبھارت سے ہے۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پروہت اور خفیہ ایجنسی را ملوث تھی۔ ٹرین میں پاکستانیوں پر حملے کیلئے بم فراہم کرنے والا کرنل پروہت بھی تین برس قبل رہا کیا جا چکا ہے ۔ مقدمے میں 224 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔اس طویل مقدمے میں تقریباً 300 گواہ تھے جبکہ درجنوں بھارتی سرکاری گواہ منحرف ہوئے۔قبل ازیں سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کا الزام ’اسلامک موومنٹ آف انڈیا‘ پر لگا دیا گیا تھا تاہم 2010 میں انتہا پسند ہندوئوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے۔بھارتی انویسٹی گیشن ایجنسی کی 1500 صفحات پرمبنی چارج شیٹ کے مطابق حملے میں پاکستانیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ دریں اثنا دفتر خارجہ نے سمجھوتہ ایکسپریس کیس کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ دہشت گردحملے میں ملزمان کی بریت نہایت قابل مذمت ہے۔دفترخارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو طلب کرکے سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزمان کی بریت پر شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ سمجھوتا ایکسپریس پر دہشت گرد حملے میں42 سے زائد پاکستانی شہید ہوئےتھے۔انہوں نے استفسار کیا کہ شہدا کے خاندانوں کو کیا جواب دیا جائے گا؟علاوہ ازیں سانحے میں متاثر ہونے والے فیصل آباد کے رہائشی شوکت علی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ فروری 2007 میں دہلی میں ایک شادی میں شرکت کے بعد اپنی بیوی رخسانہ اور 6 بچوں کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس پر پاکستان واپس آ رہے تھے۔ نصف شب کے قریب جب ٹرین ہریانہ کے شہر پانی پت کے دیوانی گائوں کے نزدیک پہنچی تو اس کے ایک کمپارٹمنٹ میں بم دھماکے ہوئے جس سے دو بوگیاں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔دھماکوں کے بعد لگنے والی آگ میں ان کے پانچ بچے درجنوں دوسرے افراد کے ساتھ زندہ جل کر مر گئے تھے۔انہوں نے اپنی اہلیہ اور ایک سال کی بچی کے ہمراہ ٹرین سے کود کر جان بچائی ۔ہم چلاتے رہے ’ہمارے بچے بچاؤ، ہمارے بچے بچاؤ‘ لیکن جب تک مدد آئی بچے جل کر راکھ ہو چکے تھے۔شوکت اور رخسانہ کو دہلی کے صفدر جنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ایک ہفتے کے علاج کے بعد انھیں پاکستان بھیجنے کی تیاری کی جانے لگی۔ لیکن انھوں نے اپنے بچوں کی لاشوں کے بغیر پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ شوکت علی نے بتایا اس کی سب سے بڑی بیٹی عائشہ 16 برس کی تھی۔جب ہمیں زبردستی اسپتال لے جایا جا رہا تھا تو میں نے آگ بجھانے والوں کو تاکید کی تھی کہ عائشہ پرکپڑا ڈال کر نکالیں۔ بہت حیادار تھی میری بچی۔ اس نے تو کبھی سر سے دوپٹہ نہیں ہٹایا تھا۔شوکت علی کے مطابق انہیں انڈیا کی کسی عدالت نے چشم دید گواہ کے طور پر گواہی کے لیے نہیں بلایا۔مجھے سب کچھ یاد ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے مجھے موقعہ ملے کہ میں دنیا کو بتا سکوں کہ 18 فروی 2007 کی رات سمجھوتہ ایکسپریس میں سفر کرنے والے درجنوں مسافروں کے ساتھ کیا ہوا۔شوکت علی کے مطابق انہیں پتہ چلا تھا کہ ٹرین میں دو ایسے افراد موجود ہیں جن کے پاس پاسپورٹ نہیں تھے۔