واشنگٹن/انقرہ/غزہ(امت نیوز) امریکہ نے شورش زدہ شام کی بندر بانٹ شروع کر دی ہے ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کی ملکیت تسلیم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیئے ہیں۔شام نے گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے امریکی اقدام کو اپنی خود مختاری اور جغرافیائی وحدت پر کھلا حملہ قرار دیا ہے ۔روس و ترکی نے امریکی اقدام مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے ۔ صدر رجب طیب اردوغان نے گولان کی پہاڑیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے ۔27 یورپی ممالک پر مشتمل یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اعلان کے باعث وہ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتی ۔یورپی یونین کا اس ضمن میں موقف تبدیل نہیں ہوگا ۔غزہ کی حکمران جماعت حماس نے امریکی صدر کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے ۔حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سرخ لکیر عبوری کی تو اسے بھرپور جواب دیا جائے گا ۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران شام میں گولان کی پہاڑیوں کے کچھ حصے پر قبضہ کیا تھا۔پیر کی صبح غزہ سے ہونے والے راکٹ حملے میں7اسرائیلی زخمی ہو گئے جس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکہ کا دورہ مختصر کردیا ۔حماس کی جانب سے راکٹ حملے میں ملوث ہونے کی تردید کے باوجود اسرائیلی فوج نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر بمباری کی ۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس سربراہ اسماعیل ہانیہ کا دفتر اور حماس کا ایک خفیہ ہیڈ کوارٹرز تباہ کر دیا ہے جو ایک 5 منزلہ عمارت میں قائم تھا ۔اسرائیل کی جانب سے غزہ سرحد پر فوجی نقل و حرکت بڑھا دی گئی ہے اور ریزرو فوجیوں کو بھی طلب کر لیا گیاہے ۔اسرائیلی اہلکاروں کی جانب سے جیل میں قید فلسطینیوں پر حملے کئے گئے جس کے نتیجےمیں 15فلسطینی زخمی ہو گئے ۔یورپی ملک رومانیا نے بھی اسرائیلی خوشنودی کیلئے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو وائٹ ہاؤس آمد پر شام کی گولان کی پہاڑیوں کے معاملے پر امریکی پالیسی کے برعکس اسرائیل کی ملکیت تسلیم قرار دینے کے حکم نامے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے شانہ بشانہ رہے گا۔دستخط کرنے کے بعد نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے تعلقات انتہائی مضبوط ہیں ۔ہم اسرائیل پر مزید کوئی نیا حملہ ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے ۔نیتن یاہو نے گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیلی حصہ تسلیم کرنے کے ٹرمپ کے اقدام کو تاریخی اور منصفانہ قرار دیا اور کہا ہے کہ ہم نے اپنے خلاف دفاعی جنگ میں یہ علاقہ فتح کیا تھا ۔واضح رہے کہ 1981 میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کو اپنے ملک میں شامل کرنے کا قانون منظور کیا تھا جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قراردادنمبر497 کےذریعے مسترد کر دیا ہے اور گولان پر اسرائیلی قبضے ، اسرائیلی قوانین، عدالتی نظام اور انتظامیہ کے تمام تر فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا ۔حماس نے شام میں گولان کے پہاڑی علاقے پر صہیونی حاکمیت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کو مسترد کرتے ہوئے اسےعرب قوم پر ایک اور حملہ قرار دیا ہے۔حماس کے ترجمان فوزی براہوم کا کہنا ہےکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شام میں گولان کے پہاڑی علاقے پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرنے کا اعلان حقائق، عالمی قوانین اور قراردادوں کے منافی ہے۔ڈرامائی فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی جارحانہ پالیسی کا عکاس ہےجو خطے میں نئے بحران اور کشیدگی کا باعث بنے گا۔اسرائیل سرکش اور استعماری قوت ہے جو خطے میں دہشت گردی کو مزید ایندھن فراہم کر رہی ہے۔حماس نے عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی خلاف ورزیوں اور مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے میں اور اسرائیلی قبضہ کے خلاف جدوجہد میں کردار ادا کریں۔ادھر ایک انٹرویو میں ترک صدر ر جب طیب اردوغان نے شامی گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرنے کے اقدام کواقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدرنے اسرائیلی وزیر اعظم کو اپریل میں انتخابات سے پہلےتحفہ دیا ہے ۔ادھر پیر کی صبح غزہ میں رفاہ کے علاقے سے داغے راکٹ حملے میں7 اسرائیلی زخمی ہو گئے۔ اسرائیل کے مطابق غزہ سے داغا گیا راکٹ 80کلو میٹر دور شمالی تل ابیب کے علاقہ مشمیرت میں واقع ایک گھر پر گراتھا۔ راکٹ حملے کے بعد امریکہ کے دورے پر گئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے وطن واپس جانے کا اعلان کر دیا ۔صیہونی وزیر اعظم نے کہا کہ راکٹ حملے کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا اور میں فلسطینیوں کیخلاف کارروائیوں کی نگرانی کیلئے واپس جا رہا ہوں ۔راکٹ حملے سے لاتعلقی کے اعلان کے باوجود اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر بمباری کی ۔غزہ کی سرحد اور دیگر علاقوں میں اسرائیلی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا۔ کئی برس بعد پہلی بار اسرائیلی فوج کے ریزرو دستوں کو بھی بلا لیا گیا ہے ۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے تربیتی مراکز اور چوکیوں کو نشانہ بنایا۔عالمی میڈیا کے مطابق غزہ پر اسرائیلی حملے کے پیش نظر تمام اسپتال ہائی الرٹ رہے۔حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سرخ لکیر عبور کی تو اس کو بھر پور جواب دیا جائے گا۔حملے کا متحد ہو کر جواب دیا جائے گا۔حماس کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ کسی بھی گروپ کی جانب سے راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ غلطی یا نادانستگی میں ہوا ہے ۔اسلامی جہاد نے متنبہ کیا ہے کہ اگر صیہونیوں نے غزہ پر حملے کی کوشش کی تو اسے پوری قوت سے جواب دیا جائے گا ۔مشرق وسطیٰ کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ نکولے ملادینوف کا کہناہے کہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کیلئے عالمی ادارہ مصر اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے ۔علاوہ ازیں رومانيہ کی وزیراعظم ويوريسا ڈانسيلا نے امریکہ میں یہودی تنظیم کے اجلاس سے خطاب میں اپناسفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔دریں اثنا غزہ اسرائیلی فوج کی کمانڈو یونٹ کے اہلکاروں نے جزیرہ نما النقب کی جیل میں قیدی فلسطینیوں پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں 15 اسیران زخمی ہوگئے۔ اس موقع پر قیدیوں نے چاقو سے حملہ کر کے 2 اسرائیلی زخمی کر دیئے، جنہیں ہیلی کاپٹرزسےاسپتا ل منتقل کیا گیا۔