واشنگٹن/بیجنگ/ اسلام آباد(امت نیوز/ مانیٹرنگ ڈیسک) سلامتی کونسل کی تعزیراتی کمیٹی میں مولانا مسعود اظہر کے معاملے پر منہ کی کھانے کے باوجود امریکہ باز نہیں آیا اور اس نے جیش محمد سربراہ پر پابندی لگانے سے متعلق قرار داد کا مسودہ براہ راست سلامتی کونسل میں پیش کردیا ہے ،جس میں برطانیہ اور فرانس اس کے ہم قدم ہیں۔امریکی وزیر خارجہ نے بلیک میلنگ کیلئے سنکیانگ کا معاملہ بھی اٹھایا اور بیجنگ پر دباؤ بڑھایا ہے ،تاکہ وہ اس بار جیش محمد سربراہ پر پابندی میں رکاوٹ نہ بنے۔ دوسری طرف چین نے ایغور مسلمانوں سے متعلق پومپیو کا بیان اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے دیا اور خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن احتیاط برتے، معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ متعلقہ کمیٹی کو نظر انداز کرنے سے صورتحال پیچیدہ ہو جائے گی۔ ادھر پاکستان نے بھی کہا ہے کہ مسعود اظہر کا معاملہ مشاورت سے حل ہونا چاہئے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو غیرملکی سفارتکاروں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پلوامہ حملے میں کسی پاکستانی پر الزام ثابت نہیں ہوسکا۔تفصیلات کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان میں قائم جیش محمد کے سربراہ کو ’بلیک لسٹ‘ کرنے کی تحریک پیش کی ہے،دو ہفتے قبل اسی نوعیت کی قرار داد دہشت گرد گروپوں پر پابندی لگانے سے متعلق سلامتی کونسل کی تعزیراتی کمیٹی1267 میں لائی گئی تھی تاہم چین نے اسے تیکنیکی بنیادوں پر التوا میں ڈال دیا تھا جس پر بھارت اور امریکہ نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔چین اس سے قبل بھی اسی طرح کی قرارداد 3مرتبہ ویٹو بھی کرچکا ہے۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی جا سکتی ہے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے الزام لگایا کہ چین کی مسلمانوں کیلیے الگ پالیسی ہے۔ایک طرف سنکیانگ میں مسلمانوں کو ہراساں کر رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی جیش محمد کے سربراہ کو اقوام متحدہ میں بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔بیجنگ کو چاہیئے کہ وہ مسعود اظہر کیلئے ڈھال نہ بنے۔پومپيو نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ چین کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھے گئے تمام ایغور مسلمانوں کو رہا کرنا چاہیے اور ا ن کے خلاف ظلم وستم کو ختم کیاجانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عالمی برادری مسلمانوں کے سلسلہ میں چین کے شرمناک رویہ کو برداشت نہیں کر سکتی ۔دوسری جانب بیجنگ میں وزرات خاجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے مائیک پومپیو کا بیان انتہائی مایوس کن اور خالصتاً چین کے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ سنکیانگ میں تمام صورتحال مستحکم ہے اور تمام اقلیتی برادری باہم اتفاق سے زندگی گزار رہی ہے۔ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان نےامریکہ پرزوردیا کہ مسعود اظہر پرپابندی کے مسئلے میں احتیاط برتی جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ کمیٹی کو نظر انداز نہ کیاجائے کیونکہ اس سے معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوگا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ چین مذاکرات اور اتفاق رائے سے اس کے مناسب حل کیلئے کوششیں کررہا ہے ۔ امریکی اقدام سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کے طورپر کمیٹی کے اختیارات کم ہوگئے ہیں۔واشنگٹن احتیاط سے کام لے اور قرارداد کے اس مسودے کو آگے لے جانے پر زوردینے سے باز رہے ۔ گینگ شوانگ نے کہاکہ سیکورٹی کونسل کو دانشمندانہ طریقہ سے تعمیری کردار ادا کرنا اور متعلقہ فریقوں کو مذاکرات کیلئے ضروری وقت دینا چاہیے ۔ادھر اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کومعمول کی بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان مسعود اظہر کے معاملے کو سلامتی کونسل کی تعزیراتی کمیٹی میں مشاورت کے ذریعے حل کرنے اور اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرنے کے عزم پر قائم ہے۔ترجمان نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ قرارداد ایسے وقت سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ہے جب یہ معاملہ کونسل کی تعزیراتی کمیٹی میں پہلے ہی زیرِ غور ہے۔ترجمان نے پلوامہ حملے کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ پر اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں کوبریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کالعدم جماعت کے 90 افراد اور مبینہ تربیتی کیمپس کے 22 مقامات کی فہرست کا جائزہ لیا گیا لیکن تحقیقات میں 54 زیر حراست افراد کاپلوامہ واقعہ سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے 22 مقامات کی نشاندہی کی لیکن کوئی تربیتی کیمپ نہیں ملا،تحقیقات کیلئے بھارت کومزید دستاویزات اورمعلومات فراہم کرناہوں گی۔نجی ٹی وی کے مطابق دفتر خارجہ میں بتایا گیا کہ بھارت کی جانب سے 27 فروری کو پلوامہ حملے سے متعلق شواہد دیے گئے اور بھارت کی جانب سے ملنے والی دستاویزات کے فوراً بعد پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی اور بھارتی دستاویز کی روشنی میں کئی افراد کو حراست میں لیا۔شرکا کو بتایا گیا کہ پاکستان نے پلوامہ حملے سے متعلق معلومات کو فوکس کیا، تکنیکی معاملات کو دیکھا اور سوشل میڈیا پر معلومات کا جائزہ بھی لیا، تحقیقات کے دوران معاملے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا۔حملہ آور عادل ڈار کے اعترافی ویڈیو بیان کا بھی جائزہ لیا گیا، مزید تحقیقات کے لیے بھارت سے مزید معلومات اور دستاویزات درکار ہیں، پاکستان پلوامہ حملے سے متعلق بھارتی الزامات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔واٹس ایپ، ٹیلی گرام نمبر اور ویڈیو میسجز سے متعلق تحقیقات کیں جب کہ سم لوکیشن اور کالعدم تنظیموں کے کیمپس سے متعلق بھی تحقیقات کیں، فراہم کیے گئے تمام متعلقہ نمبر پر سروس دینے والی کمپنیز سے تفصیلات لیں اور واٹس ایپ میسج سے متعلق امریکی حکومت سے رابطہ کیا گیا ہے۔دفتر خارجہ کے حکام نے بریفنگ کے دوران بتایا ‘ 54 افراد کو حراست میں لے کر تحقیقات کیں، ابھی تک ان کا پلوامہ حملے سے تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔دفتر خارجہ کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارت نے جن 22 مقامات کی نشاندہی کی تھی ان کا بھی معائنہ کیا گیا ہے تاہم ان 22 مقامات پر کسی کیمپ کا کوئی وجود نہیں، پاکستان درخواست پر اِن مقامات کا دورہ بھی کروا سکتا ہے۔