جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کابینچ سے علیحدہ کرنے کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں ادویات کے فضلے کو تلف کیے جانے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ سے الگ کرنے کے طریقہ کار پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحفظات کا اظہار کردیا۔ 8 مئی کو سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں ادویات کے فضلے کو تلف کیے جانے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت تھی اور چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ اس کی سماعت کررہا تھا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں اسپتالوں کے فضلے سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس فائزعیسیٰ نے چیف جسٹس پر اعتراض اٹھادیاتھا اور کہا تھا کہ آپ ہیومن رائٹس سے متعلق امور کی سماعت نہیں کرسکتے، چیف جسٹس آرٹیکل ایک سو چوراسی کے تحت انسانی حقوق سے متعلق امور کی سماعت نہیں کرسکتے، اس سماعت کے حوالے سے اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک نوٹ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ سماعت کے دوران صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ معاملہ کس طرح آرٹیکل 184 تھری کے اندر آتا ہے آپ 184 تھری پڑھیں۔جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے نوٹ کے مطابق ابھی ایڈووکیٹ جنرل 184 تھری پڑھ ہی رہے تھے کہ اس دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے مداخلت کی اور کہا کہ ہم یہ بینچ دوبارہ تشکیل دیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ 184 تھری کو پڑھے جانے سے پہلے چیف جسٹس نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ بینچ کو دوبارہ تشکیل دے رہے ہیں جس کے بعد بینچ اٹھ گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ کے مطابق بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا تاہم اس حوالے سے مجھے کوئی نوٹس نہیں بھجوایا گیا،جس کے بعد دو رکنی بینچ اکھٹا ہوا اور اس بینچ میں مجھے شامل نہیں کیا گیا اور مجھے نکال دیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ بینچ کی تشکیل نو بلاجواز اور بے مثال ہے کیوں کہ اس حوالے سے کوئی آرڈز مجھے نہیں دیا گیا اور ایسا کرنے سے نظام انصاف کی شفافیت کو نقصان پہنچا ہے جس کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ سپریم کورٹ کے اصل دائرہ کار کے استعمال سے پہلے اس کا آئین سے مطابقت دیکھنا ضروری ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ یہ نوٹ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اپنے ضمیر پر بوجھ برداشت کرنا پڑتا۔آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ مجھے جج کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا جارہا ہے۔