اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی، اس موقع پر نامزد ملزم عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے بیان قلم بند کراتے ہوئے کہا کہ گلف اسٹیل ملز کی فروخت سے متعلق شریف خاندان کے دعوے کی تصدیق کے لیے خط لکھا جب کہ یو اے ای نے گلف اسٹیل ملز کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا دعوی غلط قرار دیا۔واجد ضیاء کے مطابق گلف اسٹیل کی فروخت سے 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا اور دبئی کورٹ سسٹم میں 1980 کے معاہدے کی نوٹرائزیشن کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔نیب کے گواہ نے کہا کہ نتیجہ اخذ کیا کہ سپریم کورٹ میں مریم، حسن اور حسین نواز کی طرف سے جعلی دستاویزات دی گئیں، آہلی اسٹیل ملز کے اسکریپ کی تفصیل کا حسین نواز کا دعویٰ بھی جھوٹا نکلا۔ واجد ضیاء کے مطابق حسین نواز نے کہا کہ 50 سے 60 ٹرکوں میں فیکٹری کا اسکریپ ٹرانسفر کیا گیا اور اس حوالے سے انہوں نے غلط بیانی کی۔نواز شریف کے وکیل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ واجد ضیاء اپنا تجزیہ اور رائے بطور بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں اور وہ جن پراپرٹیز کا ذکر کر رہے ہیں وہ اس کیس میں غیر متعلقہ ہے۔خواجہ حارث کے اعتراض پر پراسیکیوٹر نیب نے مخالفت کی اور کہا کہ خواجہ حارث بیان لکھوا لیں ہم جرح کر لیں گے۔واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے پوچھے گئے سوالات اور اخذ نتیجہ جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ بنیادی طور پرانویسٹی گیشن رپورٹ ہے جو قانون شہادت کے تحت قابل قبول نہیں۔نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں نیب کو ریفرنس تیار کرنے کا حکم دیا جب کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ قابل قبول شہادت نہیں۔یاد رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء العزیزیہ ریفرنس میں نیب کے آخری گواہ ہیں۔
گیارہ مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر واجد ضیاء نے نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کو منتقل کی جانے والی رقوم کی تفصیلات عدالت میں پیش کی تھیں۔