لندن فلیٹس حسین نوازکی ملکیت ہیں۔ مریم نواز

 

اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکی۔ جب کہ نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر عدالت میں پیش ہوئے
احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کا بیان آج مسلسل دوسرے روز قلمبند کیا کیاگیا۔مریم نواز نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ لندن فلیٹس حسین نوازکی ملکیت ہیں، نیلسن اورنیسکول کمپنی کے بینیفشل مالک بھی حسین نوازتھے، دونوں کمپنیوں کا ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے ٹرسٹی بنایا گیا۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی نے کہا کہ حسین نوازکےانٹرویوکی سی ڈی، ٹرانسکرپٹ قانون کےمطابق نہیں ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میں نے جے آئی ٹی میں دونوں ڈکلیئریشن پیش کیے، دونوں ڈکلیئریشن نوٹری پبلک سے تصدیق شدہ تھے۔

مریم نواز نے کہا کہ واجد ضیاء نے جان بوجھ کربدنیتی پرمبنی اورمن گھڑت بیان دیا، واجد ضیاء نے کہا کہ میں نے ٹرسٹ ڈیڈ کی دوبارہ تصدیق کی۔سابق وزیراعظم کی بیٹی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بات نہیں لکھی کہ مجھے کنفرنٹ کردیا گیا جبکہ عدالت نے مجھے اورشوہرکوشامل تفتیش ہونے کا حکم نہیں دیا تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی نےعدالتی ہدایت نہ ہونے پربھی ماہرین کی رائے لی، رابرٹ ریڈلے کی خدمات جی آئی ٹی براہ راست لے سکتی تھی لیکن ان کی خدمات راجہ اختر کے ذریعے لی گئیں۔مریم نواز نے کہا کہ خدمات اخترراجہ کے ذریعے لینے کا مقصدرپورٹ پر اثراندازہونا تھا، مقصد مطلب کی رپورٹ لے کرمجھے اورشوہرکوکیس میں ملوث کرنا تھا۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ ریڈلے کی رپورٹ اسکین کاپی کے ذریعے تیارکی گئی جو قابل قبول نہیں ہے، رپورٹ فرانزک سائنس کے معیارپرپورانہیں اترتی۔انہوں نے کہا کہ واجد ضیاء نے ریڈلے رپورٹ کی مجھ سے دوبارہ تصدیق نہیں کرائی جبکہ رپورٹ اس وقت جے آئی ٹی کی پاس موجود تھی۔

مریم نواز نے کہا کہ نہیں جانتی کب، کن شرائط پرڈکلیئریشن کے سیٹس ریڈلے لیبارٹری کو ملے، نہیں جاتنی، کس شخص نے تصدیقی سرٹیفکیٹ لندن میں پہنچائے۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ نہیں پتہ کس نے رپورٹ جے آئی ٹی کو دینے کے لیے ریڈلے سے وصول کی جبکہ ٹرسٹ ڈیڈ کی ریڈلے کوترسیل، جےآئی ٹی کو رپورٹ وصولی معمہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ ہفتے کے روزتیارہوئی اورہفتے کولندن میں کام نہیں کیا جاتا، ونڈووسٹا بیٹا ورژن اپریل 2005ء میں دستیاب تھا، اکتوبر 2005ء میں مزید ورژن سامنے آئے۔مریم نواز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے خود کہا کہ انہوں نے کیلبری فونٹ کوڈاؤن لوڈ کیا، ریڈلے نے تسلیم کیا کیلبری کے خالق کوفونٹ ڈیزائن کرنے پرایوارڈ ملا۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ ریڈلے کی سافٹ وئیراورکمپیوٹرسائنس میں کوئی کوالی فکیشن نہیں، رابرٹ ریڈلے خود فونٹ کی شناخت کا ماہر نہیں، ریڈلے نے کن معلومات پر رپورٹ تیار کیں، ان ذرائع کا ذکر نہیں ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ :رابرٹ ریڈلے نے کسی کتاب، آرٹیکل کا ذکربھی نہیں کیا، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ انحصار کرنے کے قابل نہیں ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ریڈلے مقدمے میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے والے گواہ ثابت ہوئے جبکہ رپورٹ غیر ضروری جلد بازی میں تیار کی گئی۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ غیر ضروری جلد بازی کرنا عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے، رپورٹ تعصب پر مبنی اور یکطرفہ تھی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ قطری خطوط، منی ٹریل کی ورک شیٹ پرسوال میرے متعلق نہیں، قطری خطوط، ورک شیٹ سے متعلق متفرق درخواستوں میں فریق نہیں ہوں۔مریم نواز نے کہا کہ قطری خاندان سے کاروبار، ٹرانزیکشن سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ استغاثہ کے شواہد سے بھی میرا کاروبارسے کوئی تعلق ظاہرنہیں ہوتا۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ قطری شہزادے نے جے آئی ٹی میں شامل تفتیش ہونے سے انکار نہیں کیا، وہ اپنے محل میں بیان قلمبند کرانے کے لیے تیار تھا۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میرا توکیس یہی ہے کہ میری مؤکل کا کردارصرف ٹرسٹی کا تھا، باقی جو جس نے پیش کیا ہے وہ اس کا جواب دے گا۔

انہوں نے عدالت کوبتایا کہ ریڈلے رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں وہ ڈکلیئریشن سے تیارہوئی، عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ رابرٹ ریڈلے کی دوسری رپورٹ سے متعلق کیا کہیں گی؟۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے جواب دیا کہ 8 جولائی کی خود ساختہ رپورٹ قابل اعتبار نہیں جبکہ رپورٹ کی تیاری میں کئی کوتاہیاں ہیں معیار پرپورا نہیں اترتی۔

مریم نواز نے کہا کہ اختر ریاض راجہ نے ڈکلئیریشن ای میل کے ذریعے بھجوائی تھی جبکہ دستاویزات کا فرانزک معائنے کا فوٹو کاپی سے کوئی تصورنہیں۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رابرٹ ریڈلےنے فرانزک معائنے سے معذرت نہیں کی، رابرٹ ریڈلے نے فوٹو کاپی سے ہی معائنہ کیا جس سے اس کی بدنیتی ظاہرہوتی ہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسفسار کیا کہ یہ جواب کافی طویل نہیں ہو گیا؟ جس پرمریم نواز کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کی موکل کو صرف بیان میں بولنے کا موقع ملتا ہے، باقی تو صرف ہم نے ہی بولنا ہوتا ہے۔مریم نواز نے کہا کہ ریڈلے نے رپورٹ میں لکھا ٹرسٹ ڈیڈ کیلبری فونٹ میں تیار ہوا، لکھا 2007 سے پہلے کیلبری فونٹ کمرشل استعمال میں نہیں تھا۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی رائے بدنیتی پر مبنی تھی، ریڈلے نے دوران جرح اعتراف کیا کیلبری فونٹ 2005 میں تھا۔مریم نواز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے خود بھی فونٹ پہلے ڈاؤن لوڈ کررکھا تھا، کہا کمرشل استعمال سے پہلے فونٹ ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کیا جاسکتا تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کومیری موجودگی میں سیل نہیں کیا گیا، ہوسکتا ہے ٹرسٹ ڈیڈ کی پن اخترراجہ اور جےآئی ٹی نے خود ہٹائی ہو۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ اخترراجہ کیس میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے والے گواہ تھے، ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی جیرمی فری مین کے دفتر میں موجود تھی۔

مریم نواز نے کہا کہ اخترراجہ یا نیب افسرنے جیرمی فری مین سے کاپی لینے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ پوچھےگئے ٹرانزیکشن، دیگرمعاملات سے متعلق علم نہیں، تسلیم شدہ ہے کہ مجھے 2006ء میں ٹرسٹی بنایا گیا۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ گلف اسٹیل سے معاہدے دیکھے مگرٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہی، اس لیے اس سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں ہے۔عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ دسمبر 2016 کے قطری خط سے متعلق کیا کہتی ہیں؟ جس پرمریم نواز نے جواب دیا کہ قطری شہزادے نے اپنے خط کے متن کی تصدیق کی ، قطری شہزادے نے جےآئی ٹی کے ہر خط کا جواب دیا۔

مریم نواز نے کہا کہ قطری شہزادے نے اپنے سپریم کورٹ میں دیے ہرخط کی تصدیق کی، میں ان متفرق درخواستوں میں فریق نہیں تھی، فریق نہیں تھی اس لیے یہ سوال مجھ سے متعلق نہیں ہے۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ قطر سے کسی قسم کی ٹرانزیکشن ودیگرمعاملات میں شامل نہیں تھی، حدیبیہ ملز ،التوفیق میں کمپرومائز سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دستاویز فوٹو کاپی پر مشتمل ہے اس لیے قابل قبول شہادت نہیں، ان کارپوریشن سرٹیفکیٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں، ان کارپوریشن سرٹیفکیٹ کی کاپی قابل قبول شہادت نہیں ہے۔مریم نواز نے کہا کہ جب جمع کرائیں گئیں، میرے وکیل نےاعتراض اٹھایا، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ کومبر گروپ ڈکلیئریشن غلطی سے متفرق درخواست کے ساتھ لگا، نیلسن اور نیسکول کی ڈکلیئریشن متعلقہ تھیں۔انہوں نے کہا کہ اس کی کاپی اگلے دن متفرق درخواست کے ساتھ پیش کی تھی، اسٹیفن موورلے نے قانونی سوال کا جواب دیا، تصدیق کی برطانوی قانون میں ٹرسٹ ڈیڈ کورجسٹرڈ کرانا لازم نہیں ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ نیب اورجے آئی ٹی نے اسٹیفن موورلے کو شامل تفتیش نہیں کیا، نیب نے لندن جا کر بھی اسٹیفن موورلے کو شامل تفتیش نہیں کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران مریم نواز نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات میں سے 46 کے جواب تحریری شکل میں پڑھ کر سنائے تھے۔یاد رہے کہ اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف نے مسلسل تین سماعتوں کے دوران 128 سوالات کے جواب دیے تھے۔