آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کو 28 مئی کو جی ایچ کیو میں طلب کرلیا گیا ہے جس میں ان کو بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ ملکر کتاب لکھنے کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے کہا جائے گا۔
ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ اسد درانی کو 28مئی کو جی ایچ کیو میں طلب کیا گیا ہے اسد درانی سے ان کی کتاب سے متعلق وضاحت لی جائے گی۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اسد درانی کی کتاب کے مواد کو ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تصور کیا گیا ہے اور ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی پابندی کا اطلاق تمام حاضر اور ریٹائرڈ فوجیو ں پر ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ کوئی فرد ادارے سے اور کوئی ادارہ ملک سے بڑا نہیں ہے۔
سابق فوجی افسران بھی برہم
دوسری جانب فوج سے ریٹائرڈ دفاعی ماہرین نے بھی اسد درانی کے خلاف سخت مؤقف اپنایا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر)اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ جرم ثابت ہوگیا تو اسد درانی کو سزا ضرور ملے گی ، قومی راز جو بھی افشاکرے گا اس کا مواخذہ کیا جا ئے گا۔
انہوں نے کہا کہ فوجی افسر نے حلف لیا ہوتا ہے جس کے مطابق وہ سرکاری رازوں کا امین ہوتا ہے ۔1971کی جنگ میں جن افسروں نے بنگلہ دیش یا بھارتی قید کے دوران قومی راز افشاکئے تھے ان کے خلاف کارروائیاں ہوئیں تھیں اور یہ ہو تی رہتی ہیں اوران میں معافی نہیں ہوتی ۔
ماضی میں بھی مسائل پیدا کیے
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جنر ل (ر)امجد شعیب نے کہا کہ اسد درانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن کے پاکستان میں رہائش کے بارے کچھ آرمی افسران کو پتہ تھا لیکن یہ بات جھوٹ ہے ،انہوں نے بریگیڈیئر (ر)عثمان پر بھی الزامات لگائے ہیں جو بالکل غلط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی کیو نکہ اب وہ ایک سول پرسن ہیں۔
امجد شعیب نے بتایا کہ اسد درانی سیاست میں حصہ لیتے تھے جس پر اس وقت کے آرمی چیف نے ان کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا تھا اور جی ایچ کیو میں تعینات کردیا تھا لیکن جب انہوں نے سیاست میں دلچسپی لینا جاری رکھی تو پھر ان کونوکر ی سے نکال دیا گیا،اس لئے اسد درانی کو کوئی بھی ان” لوز “حرکتوں پر عدالت میں گھسیٹ سکتا ہے اور جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں ان کو بھگتنا بھی چاہئے۔