اسلام آباد پلڈاٹ نے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل الیکشن اورمتعلقہ اداروں کی شفافیت سے متعلق اپنی 11 نکاتی رپورٹ جاری کی ہے جو موضوع بحث بن گئی ہے ۔
اس سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری کا تاثر 45.8 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اورامیدواروں کی جانب سے فوج کے غیرجانبدار ہونے کا تاثر 33.4 فیصد ہے۔
الیکشن کمیشن کی آزادی غیرجانبداری اورموثر ہونے کا تاثر 65.3 فیصد ہے جسے منصفانہ قراردیا گیا ہے ۔
اس سروے رپورٹ کے مطابق نیب کے احتسابی عمل کے غیرجانبدار ہونے کا تاثر41.1 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ نجی میڈیا کے ریاستی اثر رسوخ اورذاتی مفادات سے آزادی کا تاثر37.8 فیصد سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابہی فہرستوں کی ساکھ کا تاثر 67.3 فیصد ہے ۔ سیاسی سرگرمیوں کیلئے یکساں سازگار فضا فراہم کرنے کیلئے امن وامان کی برقراری کا تاثر 58.8 فیصد ہے ۔
انتخابی حلقہ بندیوں کے عمل کے قوانین اورقواعد کے مطابق ہونے کا تاثر64 فیصد ہے۔۔۔ جبکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات پراثرانداز ہونے کا تاثر 57.8 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق صدراورگورنرز کے انتخابات پراثرانداز ہونے کا تاثر 61.8 فیصد ہے جبکہ ریاستی ملکیتی میڈیا کی غیرجانبداری کا تاثر41.5 فیصد سامنے آیا ہے ۔
پلڈاٹ کی اس سروے رپورٹ کے نتائج کی روشنی میں قبل ازوقت انتخابات کی شفافیت مجموعی طور پر51.5 فیصد سامنے آئی ہے۔ یعنی آئندہ عام انتخابات سے قبل عوام میں فوج، عدلیہ اورنجی میڈیا کے جانبدار ہونے کا قوی تاثر موجود ہے۔
وائس آف امریکا نے پلڈاٹ کی اس پر مختلف لوگوں سے ان کی رائے لی ہے ۔ سینئرصحافی مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران بہت زیادہ جوڈیشل ایکٹوازم دیکھنے کو ملا۔ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹس بھی متحرک رہیں اور سیاست دان ان کا نشانہ بنے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے ریمارکس اور بیانات انتہائی جارحانہ اور سخت تھے۔ اقامے پر فیصلہ ضرور سنایا گیا لیکن پاناما پر ابھی تک فیصلہ نہیں آیا۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ارکان اسمبلی کی شکایات سامنے آئیں کہ انھیں پارلیمان کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت راتوں رات تبدیل کرائی گئی۔ سینیٹ انتخابات میں مداخلت ہوئی۔ جنوبی پنجاب میں سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار ان معاملات میں براہ راست فوج کی طرف اشارہ کیا گیا۔
جسٹس وجیہہ الدین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بہت بڑی اکثریت ان پڑھ ہے۔ میڈیا کے بارے میں اس کی کوئی رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگ فوج یا عدلیہ کے بارے کیا تاثر قائم کرسکتے ہیں؟
پاکستان کی فوج نے تاریخ میں پہلی بار گزشتہ دس سال میں سویلین اموراورآئینی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ عدلیہ نے صرف حکومت کے غلط کاموں کو روکا ہے۔ چنانچہ فوج اور عدلیہ سے متعلق معاملات پہلے سے بہتر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں منفی تاثر تعلیم سے محرومی کا نتیجہ ہے۔
ممتازدانشورغازی صلاح الدین نے کہا کہ پلڈاٹ کی رپورٹ نہ صرف درست ہے بلکہ انھوں نے کافی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اصل صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلی ہوچکی۔ اس کا انتخابات پر جو اثر پڑسکتا ہے وہ پڑے گا۔ نگراں حکومت اورالیکشن کمیشن کی اگر خواہش ہو تو وہ آئندہ دو ماہ میں کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی میڈیا خوف کا شکار ہے اور سیلف سنسرشپ سے کام لے رہا ہے۔ ان حالات میں عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو اسے منظرعام پر لانے کی جرات نہیں کر سکے گا۔
پاکستان میں کئی سیاست دان اور تجزیہ کار ایک عرصے سے کہہ رہے تھے کہ آئندہ عام انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے بعض حلقوں کی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن سیاست دانوں کے الزامات پر دھیان نہیں دیا گیا اور تجزیہ کاروں کی رائے کو تعصب پر مبنی قرار دیا جاتا رہا۔