اسلام آباد :جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فاٹا کے معاملے پر جو رویہ اختیار کیا گیا اس نے پاکستان کے مستقبل پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ فاٹا کا موجودہ پارلیمنٹ کے ذریعے خیبرپختونخوا میں انضمام پر میری نظر میں پوری پارلیمنٹ نے اجتماعي خود کشی کا فیصلہ کیا ہے۔فاٹا کا انضمام اسمبلی نے کیا نہیں اس سے کروا یا گیا ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کی گردن مروڑنے والی قوت نے کروا یا ہے۔ ہم کشمیریوں کے لیے حق مانگتے ہیں لیکن اپنے لوگوں کو حق نہیں دے سکتے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر سيفران عبد القادر بلوچ میرے گھر آئے اور یقین دہانی کرائی کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام نہیں کیا جائے گا جب کہ رواج ایکٹ ختم کرنے کا بھی کہا گیا۔ تاہم تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود فاٹا کا انضمام کردیا گیا۔انہوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو پارلیمنٹ کو گالی دیتا ہے وہ بھی فاٹا کے انضمام پر ووٹ ڈالنے گیا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مقامی لوگوں کے تحفظات دور کیے بغیر بل کو پاس کیا گیا۔ فاٹا میں ایف سی آر کا قانون تو ختم ہو گیا لیکن نیا نظام اس کی جگہ نہیں آیا جس سے بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ عوام اتنے سادہ نہیں ہیں جو ان چیزوں کا نہیں سمجھتے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں اسلام آباد میں 120 دن دھرنا دیا گیا جو سب نے برداشت کیا۔ لیکن جب جے یو آئی (ف) کے کارکنوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تو ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ اب میں اپنا معاملہ قبائل جرگے کے سامنے رکھوں گا۔جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ فاٹا کے معاملے پر جو رویہ اختیار کیا گیا اس نے پاکستان کے مستقبل پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ وزیراعظم کی موجودگی میں جنرل باجوہ سے کہا کہ افغانستان کی طرف سے مشکل آ سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا کہ فاٹا کے انضمام پر افغانستان کا 24 گھنٹے میں رد عمل آیا۔ تاہم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے خدشات پر توجہ نہیں دی۔ ہم ابھی مشرقی تنازعات سے نکلے نہیں اور مغربی تنازعات کو دعوت دے دی گئی۔