ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ حساس ترین معاملات میں سے ایک ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اس وقت 1500 ایسے افراد ہیں جنھیں جبری طورپرلاپتہ کیا گیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے نے پاکستان میں لاپتہ افراد سے متعلق اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 2 سال کے دوران 140 شیعہ افراد لاپتہ ہوئے ہیں اوران میں سے 25 کا تعلق کراچی سے ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان لاپتہ افراد کے حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے خیال میں یہ تمام افراد خفیہ اداروں کی حراست میں ہیں۔
ان میں سے ایک لاپتہ شہری نعیم حیدر کے گھر والوں نے برطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ حراست میں لیے جانے سے دو روز قبل ہی اپنی حاملہ بیوی کے ہمراہ عراق میں زیارات کے بعد کراچی پہنچا تھا۔ اس کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ مجھے کوئی نہیں بتاتا کہ میرا خاوند کہاں ہے ۔ کم ازکم یہی بتا دیں کہ ان پرالزام کیا ہے۔
شیعہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ ان افراد پرشام میں سرگرم ایک مسلح ملیشیا زینبیون بریگیڈ سے رابطوں کا شک ہے۔
تاحال پاکستانی حکام کی جانب سے اس تنظیم کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی لاپتہ ہونے والی کسی بھی فرد کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
راشد رضوی کراچی میں لاپتہ شیعہ افراد کی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد میں سے بیشتر مقاماتِ مقدسہ کی زیارات سے واپسی کے بعد غائب ہوئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئےانھوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کے کچھ نمائندے میرے پاس آئے تھے۔ انھوں نے ہمیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہم احتجاج ختم کریں مگر میں نے ان سے پوچھا آپ نے ان لوگوں کو کیوں اٹھایا تو ان کا جواب تھا ہمارے خیال میں یہ شام میں داعش اورالقاعدہ سے لڑنے گئے تھے۔