اسلام آباد: حکومت کی جانب سے نئی داخلی سلامتی پالیسی کا اعلان کردیا گیاہے ،نئی پالیسی میں کالعدم تنظیم داعش پاکستان کےامن کیلئے سب سےبڑاخطرہ قراردی گئی ہے ۔
سیکیورٹی پالیسی میں یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ مدرسوں میں اصلاحات کی بھی سفارش کی گئی ہے۔سیکیورٹی پالیسی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی کئی شاخیں اور داعش کے دہشت گرد شام اور عراق سے واپس آ کرافغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ جمع ہو رہے ہیں۔
پالیسی کی سفارشات پرعمل درآمد کے لیے وزیر داخلہ کی سربراہی میں عمل درآمد کمیٹی بنے گی، مشیر قومی سلامتی، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) بھی اس کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
پالیسی میں دی گئی سفارشات پرعمل درآمد کے لیے وزیر داخلہ کی سربراہی میں عمل درآمد کمیٹی بنے گی جس میں مشیر قومی سلامتی، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی کے علاوہ وزارت داخلہ، دفاع،خارجہ، اطلاعات، مذہبی امور اور خزانہ کے سیکریٹریز اور نیکٹا چیف شامل ہوں گے۔
نئی داخلی سلامتی پالیسی کی تیاری میں برطانیہ، امریکا، بنگلا دیش، انڈونیشیا اور سری لنکا کی سیکیورٹی پالیسیوں سے رہنمائی لی گئی ہے۔اوردہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجوہات پرتحقیق کے لیے وزارت داخلہ میں ریسرچ سینٹر بھی بنایا جائے گا۔