اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی جہانگیر صدیقی کی امریکہ میں بطور سفیر تعیناتی کو باعثِ شرمندگی قرار دے دیا ۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اچھا ہوتا علی جہانگیر صدیقی بطور سفیر تعیناتی قبول نہ کرتے۔ اٹارنی جنرل کی میڈیا کو عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے سے روکنے کی استدعا بھی عدالت نے مسترد کردی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں علی جہانگیر صدیقی کی امریکہ میں بطور سفیر تعیناتی کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے کی۔دورانِ سماعت عدالت نے قرار دیا کہ علی جہانگیر صدیقی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کرنا شرمندگی کا باعث ہے۔ اٹارنی جنرل بتائیں کہ کیا علی جہانگیر صدیقی کی تعیناتی پاکستان کے لیے باعثِ شرمندگی نہیں ہے؟اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اس بات پر کوئی شبہ نہیں، عدالت کے تحفظات بالکل درست ہیں۔جسٹس اطہر امن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ علی جہانگیر صدیقی بطور سفیر تعیناتی قبول نہ کرتے۔ عدالت مملکتِ پاکستان کو شرمندگی سے بچانا چاہ رہی ہے۔ پاکستان کا امیج عدالت کو عزیز ہے۔ اس معاملے کو نئی حکومت کے آنے تک ملتوی کر دیتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت علی جہانگیر صدیقی کی تقرری کے خلاف درخواست کو منظور کر لے تو پھر اس کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں۔ نئی حکومت کو آنے دیں۔ نگران حکومت علی جہانگیر صدیقی کی تقرری کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔اٹارنی جنرل نے میڈیا کو آج کی عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے سے روکنے کی استدعا کی تو عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ عدالت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔
واضح رہے کہ علی جہانگیر صدیقی نے موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے صرف2 روز قبل امریکہ میں نئے پاکستانی سفیر کا عہدہ سنبھالا ہے۔ان کی امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر تعیناتی کو پاکستان کی مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا جاچکا ہے جب کہ کئی ارکانِ پارلیمنٹ بھی حکومت پر زور دے چکے ہیں کہ ان کی تعیناتی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ تحریکِ انصاف نے نامزد نگراں وزیرِ اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں پارٹی رہنماوں نے استدعا کی ہے کہ علی جہانگیر صدیقی کی تقرری کا معاملہ پاکستان میں متنازع رہا ہے لہٰذا ان کی تقرری کو کالعدم قرار دیا جائے۔