لاہور: سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں میں اہم شخصیات کودی گئی سکیورٹی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سیکورٹی دینے والی کمیٹی کے تمام ارکان کو ذاتی حیثیت میں رات 8 بجے طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اہم شخصیات کو سیکورٹی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر پنجاب پولیس کی جانب سے سیاستدانوں کو دی گئی سیکورٹی سےمتعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ پولیس رپورٹ پر چیف جسٹس نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں کو سیکورٹی فراہم کی گئی ہے؟ اس پر ڈی آئی جی عبدالرب نے بتایا کہ 31 سیاستدانوں کو سیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ دیکھ کر چیف جسٹس نے کہا کہ نوازشریف، شہبازشریف، احسن اقبال، ایازصادق اور زاہد حامد کی سیکورٹی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن راناثنا اللہ، مریم اورنگزیب، انوشہ رحمان، عابد شیر علی اور احسن اقبال کے بیٹے کو سیکورٹی کس لئے دی جارہی ہے؟ یہ لوگ ایک طرف عدلیہ کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف سیکورٹی مانگتے ہیں، آئی جی صاحب آپ نےعدلیہ مخالف بیانات دینے والوں کو سیکورٹی فراہم کر رکھی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک سیکورٹی اہلکار 25 ہزار میں پڑتا ہے اور ایک سیاستدان کم از کم 60 ہزار میں، قوم کا پیسہ ہے، اس طرح لٹانے کی اجازت نہیں دیں گے۔یہ لوگ خود اپنی سیکورٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے تو بیت المال سے 60 ہزار روپے دے دیں۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کو ایک چار کی سیکورٹی دی گئی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مجھے حمزہ شہباز کے برابر کی سیکورٹی دی ہے، آپ نے تو ججز اور سپریم کورٹ کے ججز کی سیکورٹی سے انکار کردیا تھا۔
عدالت نے چاروں صوبوں میں اہم شخصیات کودی گئی سکیورٹی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سیکورٹی دینے والی کمیٹی کے تمام ارکان کو ذاتی حیثیت میں رات 8 بجے طلب کرلیا۔