اسلام آباد: وزارت توانائی پاور ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری مصدق احمد خان نے کہا ہے کہ لاسز والے علاقوں کو بلا تعطل بجلی فراہم کی گئی تو نقصان پورا کرنے کے لئے باقاعدہ بل ادا کرنے والوں پر زائد بلنگ کرنا پڑے گی اور حکومت کو سیلز ٹیکس، پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمت اور موبائل فون چارجز میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
مصدق احمد خان نے کہا ہے کہ دو اہم مسائل ہیں، ٹرانسمیشن لائن لوڈ برداشت کرنے کی متحمل نہیں اور بعض علاقوں میں 80 فیصد لاسز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں صارفین بجلی کے بل ادا نہیں کررہے ہیںانہیں بجلی کی فراہمی کیسے کی جا سکتی ہے
قبائلی علاقوں میں 220 میگاواٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے لیکن 80 فیصد لاسز ہیں، اگر لاسز والے علاقوں میں 700 میگا واٹ بجلی دی گئی تو اس کا نقصان کون برداشت کرے گا۔ اگر ملک بھر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کی گئی تو حکومت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، جی ایس ٹی اور موبائل فون پر ٹیکس میں اضافہ کرے۔
ٹرائبل الیکڑک سپلائی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر میاں حامد نے کہا کہ جہاں بجلی چوری کی شرح 80 فیصد ہے ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 4 سے 20 گھنٹے تک ہے۔ قبائلی علاقوں کے 2 ہزار 200 گاؤں میں بجلی نہیں ہے اور نیشنل ٹرانسمیشن ڈسپیچ کمپنی کے ساتھ ان گاؤں کو منسلک کرنے کے لئے 9 ارب روپے درکار ہیں۔
کوئٹہ الیکڑک سپلائی کمپنی کے سی ای او عطااللہ بھٹو نے کہا کہ 80 فیصد لاسز کے باعث کمپنی کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہوتی جارہی ہے جبکہ صوبائی حکومت واجبات ادا کرنے سے قاصر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے پاس ایسی ویڈیوز ہیں جن میں لیویز اہلکاروں کے سامنے ہمارے ملازمین کو مارا جارہا ہے، اس لیے فیڈرز سے بجلی منقطع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔
حیدرآباد الیکڑک سپلائی کمپنی کے سی ای و عبدالستار میمن نے کمیٹی کو بتایا کہ حیدرآباد میں لاسز کی شرح 40 فیصد ہے اور بعض علاقوں میں بجلی کے واجبات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
Tags بجلی فراہمی