طبی ماہرین کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں 16 لاکھ بچے دمے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق دمے ایسی بیماری ہے جس میں سانس کی نالیاں اندورنی سوزش کے باعث تنگ ہوجاتی ہیں۔ جس سے مریض کے سینے میں گھٹن، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کے ساتھ سانس لیتے وقت سیٹی جیسی آوازیں نکلتی ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ دمے کی جگہ اکثر الرجی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین دمے کا نام سے خصوصاً بچوں کے معاملے میں خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق اکثر والدین اس مرض کا وقتی علاج کراتے ہیں جو کہ اس بیماری کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اس بیماری کو سمجھ کر اس کا مکمل علاج کرائیں۔ تاہم اگر اس کا علاج نہ کرایا جائے تو اس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔
اس بیماری کی وجہ بہت ساری چیزیں بنتی ہیں جن میں دھواں، بالوں والے جانور، تیز خوشبو والے اسپرے، گرد وغبار، بستر اور تکیے کی دھول، سردی، موسم کی تبدیلی، درختوں اور پھولوں کے پولن اور سگریٹ کا دھواں شامل ہیں جبکہ ماں باپ کے جھگڑے اور نفسیاتی دباؤ بھی بچوں میں دمے کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
طبی ماہرین نے مزید بتایا کہ دمے مرض کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ بچے اپنے مسائل، تکلیف اور بیماری بیان نہیں کرسکتے اور والدین بھی تکلیف سمجھ نہیں پاتے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کی تکلیف سمجھیں۔ دمہ ایک شخص سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوتا اس لئے اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی متاثرہ فرد کے برتنوں اور ساتھ کھانے پینے رہنے اور ہاتھ ملانے سے یہ بیماری پھیلتی ہے دمے کو جڑ سے ختم کرنا ممکن نہیں تاہم اس کو قابو کیا جاسکتا ہے۔