راولپنڈی :ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو ریاست، حکومت اور فوج کی سطح پر کمزوری نہ سمجھا جائے،ترجمان پاک فوج نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں ڈی جی ایم اوزنے جو اتفاق کیا اس پرعمل کیاجائے، بھارت کیجانب سےاگردوسری گولی آتی ہےتوپھربھرپورجواب دینگے، بھارت کیجانب سے پہلی گولی آنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا تو جواب نہیں دینگے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افغانستان کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور ان کے ساتھ بہت مثبت بات چیت ہوئی، آرمی چیف سے افغان وفد کی ملاقات بھی مثبت رہی، فاٹا کا خیبرپختون خوا میں انضمام تاریخی کامیابی ہے، امن لانا ہے تو فوج اور حکومت پر اعتماد رکھنا ہوگا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی میڈیا پی ٹی ایم کے جلسے کو کیوں براہ راست نشر کررہا ہے، آرمی چیف کی سخت ہدایت تھی کہ پی ٹی ایم کے جلسے کو طاقت سے منتشر نہیں کرنا، لاہور جلسے میں آرمی چیف نے پولیس کو پی ٹی ایم کارکنوں کی پکڑ دھکڑ سے منع کیا، تاحال پی ٹی ایم کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا، وانا میں پی ٹی ایم کارکن فوج مخالف نعرے لگا رہے تھے، امن کمیٹی نے منع کیا تو دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوگیا جس میں ہلاکتیں ہوئیں، لیکن سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف پروپگینڈا کیا جارہا ہے،اب ہمارے پاس پی ٹی ایم کے خلاف بہت سارے ثبوت ہیں، یہ لوگ استعمال ہورہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ضروری ہے کیونکہ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں جو بھی دہشت گرد ہیں ان سے مقابلے میں آسانی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان اور امریکی بھی محسوس کر رہے ہیں کہ ضرب عضب سے جو دہشت گردوں کی تعداد تھی اسے ختم کر دیا۔میجر جنرل آصف غفور نے مزید کہاکہ بھارت نے 2018 میں 1 ہزار 77 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کیں اور 48 پاکستانیوں کو شہید کیا، بھارت کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب سے افغانستان کے ساتھ جیو فینسنگ شروع کی تو سرحد پار فائرنگ کے 71 واقعات ہوئے، سرحد پار فائرنگ سے 7 سپاہی شہید اور 39 زخمی ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ باڑ کی اور فورس بنانے کی کوشش کو آہستی نہیں کر رہے، پچھلی دو دہائیوں میں وہ کام کیا جو کسی اور ملک نے اس طرح کے چیلنجز ہوتے ہوئے نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہر وہ کام کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے اپنی کتاب لکھنے سے پہلے کوئی این او سی نہیں لیا تھا۔ ان کیخلاف جو بھی کارروائی ہوگی اسے شیئر کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اسد درانی کی ایک شخصیت کا سب کو علم ہے کہ ان کے خلاف اصغر خان کیس پہلے ہی چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی کتاب چھپی اس کا مواد دیکھا گیا، اسد درانی نے جتنے واقعات کی بات کی ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کے ہیں اوران کی ریٹائرمنٹ کو 25 سال ہوچکے ہیں۔جب اسد درانی کی کتاب کی بات آئی تو ادارے نے خود نوٹس لیا اور انہیں طلب کر کے وضاحت مانگی، مطمئن نہ ہونے پر انکوائری کورٹ تشکیل دی گئی، انکوائری شروع ہوگئی ہے اور نتیجہ جلد آئے گا جسے شیئر کیا جائے گا۔ اگر وہ این او سی لیتے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ کتاب لکھنے اورایک عام افسر کے کتاب لکھنے میں کافی فرق ہے، یونیفارم پہننے سے کوئی فرشتہ نہیں بن جاتا بلکہ غلطی سب کرتے ہیں لیکن پاک فوج نے کسی کو غلطی پر معاف نہیں کیا چاہے وہ جنرل ہو یا سپاہی۔ سروس کے دوران باتوں پرکتاب میں تجربہ لنک کریں تو ٹھیک نہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جب بھی کسی بیرونی خطرے پر بات کی تو پوری لیڈرشپ نے فیصلہ کیا اورآگے چلے، ہم سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ امریکا کامیاب ہوکر افغانستان سےنکلے اور ایک مستحکم افغانستان چھوڑ کر جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب میں تمام دہشت گروپوں کا صفایا کیا، اس وقت پاکستان میں بشمول حقانی نیٹ ورک سمیت کسی بھی منظم دہشت گروپ کا اسٹرکچر موجود نہیں ۔ایران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ سرحد پرحالات بہتر ہوئے ہیں اورمحفوظ سرحد دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان فورسز نے دو دہائیوں میں بہت کچھ سیکھا ہے، ہم نے سیکھا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان۔بلوچستان کی صورتحال پربات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہزارہ کمیونٹی کے100 سے زائد افراد کے قتل میں ملوث سلمان بادینی کو ہلاک کیا گیا، سلمان بادینی کی ہلاکت پر ہزارہ کمیونٹی کا بہت اچھا رد عمل سامنے آیا۔سلمان بادینی کا نیٹ ورک توڑنے سے بلوچستان میں امن کی صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے۔فاٹا سے متعلق ترجمان پاک فوج نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں فاٹا کا تاریخی انضمام ہوا جو فاٹا کو ضرورت تھی۔انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین آرمی چیف سے ملے اورقومی قیادت نے مل کر فاٹا کا تاریخی فیصلہ کیا۔ فاٹا کےانضمام کا افغانستان کی سرحد کے ساتھ نہ پہلے کوئی تعلق تھا، نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ منظورپشتین اورمحسن داوڑ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کچھ باتیں بتائیں تھیں جو نقیب اللہ محسود کے بارے میں تھیں،لاپتہ افراد اورچیک پوسٹ کے معاملات تھے۔ منظوراورمحسن داوڑ کو باقی لوگوں سے الگ کیا اورانہیں مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔محسن داوڑ نے تو یقین دہانی پرشکریہ بھی ادا کیا جو ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔
ترجمان نے سوال کیا کہ منظور محسود سےمنظور پشتین کیسے ہوا، سوشل میڈیا پر مہم چل گئی، کس طریقے سے ایک ٹوپی ملک کے باہر سے تیار ہو کر پاکستان آنا شروع ہوگئی، کس طریقے سے اخباروں میں آرٹیکل آنا شروع ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا اسے نظر انداز کررہا ہے جس پراس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو پاکستان کے استحکام سے خوش نہیں وہ آپ کے ساتھ مل جائیں اورآپ کی تعریف شروع کردیں تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ کیا ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اب تک ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا لیکن اب ہمارے پاس بہت سے ثبوت ہیں کہ کس طریقے سے انہیں استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ استعمال ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وانا میں ان کا محسود قبیلہ ہے اور انہوں نے پچھلے سالہا سال دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، یہ آپس میں لڑے اور اُس میں جو ہلاکتیں اور زخمی ہوئے انہیں فوج کے ہیلی کاپٹرز سے ریسکیو کیا گیا۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ فوج کی فائرنگ سے بچی ماری گئی، پاکستان نے پچھلے 20 سال میں قربانیاں دے کر امن حاصل کیا اور جو ہم نے حاصل کیا سپر پاور سمیت کسی ملک نے نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ اب اکٹھا رہنے اور ملک کو آگے لے کر چلنے کا وقت آ گیا ہے، سوشل میڈیا پر جھوٹے نعرے لگانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کی محبت فوج کے لیے پچھلے 10 سال میں زیادہ ہوئی ہے کم نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا ہمیں یقین ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہے، اس قسم کے نعروں سے یا کوئی نام دینے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم ہر چیز کا جواب نہیں دے سکتے، کسی پارٹی یا پی ٹی ایم کا جواب نہیں دے سکتے، ہمیں اپنے کام پر فوکس کرنا ہے اور کرتے رہیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بہت سے الزام لگے، سب گواہ ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ تمام الزماات جھوٹے ثابت ہوئے، صفائی دینے کی ضرورت نہیں، اپنی کارکردگی دنیا میں دکھائی۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں سپر پاورز سمیت کوئی فوج اتنی کامیاب نہیں ہوئی جتنی پاک فوج نے دہشت گردی کےخلاف کامیابی حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹ پر سپاہی شہید ہوتا ہے، کیا چیک پوسٹ اس لیے لگائی گئی کہ سپاہی کا فائدہ ہوتا ہے؟ چیک پوسٹ پر جو سپاہی کھڑا ہے، اگر میڈیا پر اس کے خلاف تقریریں ہوں وہ کیسے کھڑا ہوگا؟میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان اور فورسز نے اپنی زندگی ملک کے نام لکھی ہوتی ہے، ہمیں کچھ نہیں چاہیئے، صرف چاہتے ہیں اپنے ذاتی مفاد میں ملک کے مفاد کو پیچھے نہ چھوڑیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر فوج کو گالیاں دینے سے آپ کا قد بڑا ہوتا ہے تو دیں لیکن اگرایسا کرنے سے پاکستان کا قد چھوٹا ہوتا ہے تو یہ نہ کریں۔کراچی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں بہت عرصے سے دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا، کراچی کرائم انڈکس کے حوالے سے چھٹے نمبر پر تھا، رینجرز اور پولیس نے بہت کام کیا اور وہاں امن لے کرآئے ہیں ۔ جب کراچی کی عوام خود کھڑی ہو گی تو یہاں کا امن کوئی خراب نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ کرائم کو کنٹرول کرنا پولیس کا کام ہے اور پولیس میں کتنے ریفارمز کی ضرورت ہے سب کو پتہ ہے، جب تک پولیس اورسول انتظامیہ ٹھیک نہیں ہوگی تو کرائم پراس طرح سے قابو نہیں پایا جاسکتا جس کی توقع کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا نے اچھا کام کیا لیکن سوشل میڈیا کے استعمال اوراثرات پ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، ہماری انٹیلیجنس ایجنسی نے ملک دشمن ڈیزائنز کو چیک کیا اور اس کا جواب دیا ہے اور یہی چیزدشمن کو تنگ کرتی ہے، ہمارے پاس اہلیت ہے کہ دیکھ سکیں سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے ایک سوال پر کہا کہ 2018 تبدیلی کا سال ہے اور جماعتیں ایک دوسرے سے مقابلے میں ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کو اس میں نہیں گھسیٹنا چاہیئے، فوج ہونے کی حیثیت سے خوشی ہوتی ہے کہ جو الزام لگتا رہا وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے کہا گیا کہ سینیٹ الیکشن نہیں ہوں گے، پھر کہا گیا کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی اور اب الیکشن کی تاریخ بھی آ گئی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سے زیادہ کسی کو خوشی نہیں حکومت نے اپنا وقت پورا کیا اور اس پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں، پاک فوج کو خوشی ہے دوسری جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کب کرانا ہیں کیسے ہونے ہیں یہ الیکشن کمیشن کا مسئلہ ہے لیکن سب کی خواہش ہے کہ الیکشن ٹائم پر ہوں، نئی حکومت آئے اور چیلنجز کو لے کر چلے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، اس حوالے سے فوج کے پاس کوئی ٹاسک آئے گا تو آئین کے مطابق کردار ادا کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں بہتر ہو۔