پی کے ایل آئی میں اربوں روپے کی خرد برد کا انکشاف

لاہور: پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ کے معاملات کا جائزہ لینے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ نے اسپتال میں اربوں روپے کی خرد برد کا انکشاف ہوا ہے۔ عدالت سے سفارش کی گئی ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پی کے ایل آئی، زیڈ کے بی اوراندرون بیرون آڈیٹرز کی چھان بین کی جائے۔ عدالتی کمیشن کو اسپتال اور کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔
پی کے ایل آئی معاملات کا جائزہ لینے کے لئے کوکب جمال زبیری پر مشتمل عدالتی کمیشن نے جزوی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پی کے ایل آئی میں میرٹ اور طریقہ کار کے برعکس بھرتیاں کی گئیں۔ ڈاکٹر سعید اختر، ان کی بیگم اور زیادہ تر عملہ الشفاء اسپتال سے لیا گیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے اسپتال کا 3 مرتبہ افتتاح کیا اور تشہیر کے لئے 10 کروڑ روپے صرف کئے۔
رپورٹ کے مطابق انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب قائم کر کے پیپرا رولز نظر انداز کئے اور تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا جبکہ میڈیکل آلات کی خریداری کا ٹھیکہ بھی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی دیا گیا۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے غیر قانونی طور پر نجی کمپنی زیڈ کے بی کو 8ارب کا غیر قانونی تعمیر کا ٹھیکہ دیا۔ طے شدہ معاہدے کے تحت انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اسپتال کو 131 بیڈ مکمل کرکے دینے تھے لیکن 31 دسمبر 2017 تک 16 بیڈ دئیے، معاہدے کے برعکس 12 میں سے 2 آپریشن تھیٹر فراہم کئے اور وہ بھی غیر معیاری ہیں اور غیر معیاری میٹریل کے استعمال کے باوجود پی کے ایل آئی نے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو پیسوں کی مکمل ادائیگی کر دی۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پی کے ایل آئی بورڈ آف گورنر کے چیئرمین تھے، شہباز شریف کی منظوری سے معاہدہ طے پایا تھا۔ رقوم کی ادائیگی کی گئیں، پی کے ایل آئی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے 80 کروڑ کی رقم کی ادائیگی کے باوجود پہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں کیا جا سکا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی تعمیر اور میڈیکل آلات کی خریداری کاابتدائی ٹھیکہ 13 ارب کا تھا جسے توسیع کرکے 19 ارب کا کر دیا۔ پی کے ایل آئی کے بورڈآف گورنر کے ممبر ظاہر خان زیڈ کے بی کا مالک ہے۔ زیڈ کے بی نے میٹرو بس کے لئے پنجاب میں تعمیراتی ٹھیکے حاصل کئے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پی کے ایل آئی، زیڈ کے بی اوراندرون بیرون آڈیٹرز کی چھان بین کی جائے۔ عدالتی کمیشن کو اسپتال اور کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔ عدالتی کمیشن کی معاونت کے لئے ماہرین کی خدمات دی جائیں۔