عالمی ادارۂ صحت نے پہلی مرتبہ الیکٹرانک گیمزیا ویڈیو گیمزکھیلنے کی لت کو باقاعدہ طورپرذہنی بیماری تسلیم کرلیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے ’گیمنگ ڈس آرڈر‘ کو بیماریوں کی تازہ ترین فہرست میں شامل کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ایسی فہرست اس سے قبل 1992 میں شائع کی گئی تھی۔
ویڈیو گیمز بنانے والی صنعت نے ان ثبوتوں کو چیلنج کیا ہے جن کی بنیاد پریہ فیصلہ کیا گیا ہے اورکہا ہے کہ وہ معترضہ اورغیرحتمی ہیں۔
تاہم طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اگرچہ زیادہ ترگیمرزخود کو یا دیگر افراد کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جنھیں ان گیمز کی لت لگ جاتی ہے اوران کا علاج کیا جانا چاہیئے۔
اس بیماری کی علامتوں میں طویل دورانیے تک گیمز کھیلنا، گیمز کو دیگر معمولاتِ زندگی پر ترجیح دینا، منفی اثرات کے باوجود گیمنگ میں اضافہ شامل ہیں۔
اسنوکر کے سابق عالمی چیمپیئن نیل روبرٹسن نے اعتراف کیا کہ ایک زمانے میں انھیں بھی ویڈیو گیمزکی لت لگی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوتا یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ 12 گھنٹے گزرگئے ہیں، پلک جھپکتے میں وقت گزرجاتا ہے۔ مجھے شدید لت لگ گئی تھی اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ میں کئی برس تک اس سے انکار کرتا رہا اورکہتا تہا کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم ہے جبکہ میں اصل مسئلے سے نمٹنے کی کوشش نہیں کررہا تھا۔
برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پہلے ہی گیمنگ کی لت کا علاج نجی سطح پرکیا جا رہا ہے تاہم عالمی ادارۂ صحت کے اس فیصلے کے بعد اب برطانیہ میں اس لت کا شکارافراد سرکاری خرچے پرعلاج بھی کرا سکیں گے۔ تاہم اس کے لےے انھیں دکھانا ہوگا کہ کم ازکم ایک برس کے لئے اس لت کے ان کی ذاتی زندگی اور تعلیمی یا ملازمتی معاملات پراثرات مرتب ہوئے ہیں۔
لندن کے نائٹ اینگل اسپتال کے ڈاکٹررچرڈ گراہم کا کہنا ہے کہ وہ ہر برس ڈیجیٹل ایڈکشن کے پچاس نئے مریض دیکھتے ہیں جن کی روزمرہ زندگی گیمنگ کی وجہ سے متاثرہوچکی ہوتی ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک میں گیمنگ کی لت سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ جنوبی کوریا میں حکومت نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے کے درمیان ویڈیو گیمز کھیلنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
جاپان میں کھلاڑی اگر مقررہ وقت سے زیادہ ویڈیو گیمزکھیلیں تو انھیں خبردارکیا جاتا ہے جبکہ چین میں انٹرنیٹ کمپنی ٹینسینٹ نے بچوں کے لیے مقبول گیمز کھیلنے کی مدت مقررکی ہوئی ہے۔