الیکشن کمیشن آف پاکستان میں این اے 166 سے سابق رکن قومی اسمبلی رانا زاہد حسین کے خلاف توہین عدالت اور جعلی ڈگری کیس کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے ریماکس دیے کہ توہین عدالت تو ایک بلیک میل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے جب بھی کسی شریف آدمی کو گھسیٹنا ہو توہین عدالت دائر کر دیں۔
تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمیشنر سردار محمد رضا کی سربراہی میںکیس کی سماعت چار رکنی کمیشن نے کی۔ رانا زاہد حسین اور رانا آفتاب کے وکیل الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
رانا زاہد حسین کے خلاف درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ رانا زاہد حسین جعلی ڈگری پر 3 الیکشن لڑ چکے ہیں، انہوں نے 2002، 2007 اور 2013 کے الیکشن جعلی ڈگری پر لڑے، بلوچستان یونیورسٹی بھی ان کی ڈگری کو جعلی قرار دے چکی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ممبر پنجاب الطاف ابراہیم قریشی نے ریمارکس دیئے کہ آپ آرٹیکل 254 کو نہیں دیکھتے نا ہی ہائی کورٹ نے پڑھا، آپ نے الیکشن کمیشن کے خلاف ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دے دی کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہاں کیا کام ہو رہا ہے؟ آپ نے دباؤ ڈالنے کے لیے توہین عدالت اور آئی سی اے بھی دائر کر دی۔ وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے خلاف ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا غلط تھا۔ چیف الیکشن کمیشنر نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت تو ایک بلیک میل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے جب بھی کسی شریف آدمی کو گھسیٹنا ہو توہین عدالت دائر کر دیں۔
رانا زاہد حسین کے وکیل نے استدعا کی کہ ہمیں دو تین دن کا وقت دیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے زاہد حسین کے وکیل کو آئندہ سماعت پر ہائیکورٹ کا آرڈر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 21 جون تک ملتوی کردی۔