ہوسٹن: امریکا میں قید ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو جیل میں جسمانی طور پر ہراساں کرنےاور جیل میں نیم بے ہوشی کی دوا استعمال کرانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔امریکہ میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے کئی سالوں سے امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کے بعد سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اِنہیں بتایا کہ جیل میں اُنہیں ناقص خوراک مہیا کی جاتی اورسلو پوائزننگ کی جاتی تھی ۔
عائشہ فاروقی نے اپنی دستاویز میں لکھا ہے کہ زیر حراست عافیہ صدیقی کو ہر وقت جسمانی اور جنسی طور پر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا خوف رہتا ہے جب کہ ایک باعمل مسلمان خاتون کو ایسی جیل میں رکھنا ناقابل قبول ہے جہاں ہر وقت جنسی زیادتی کا خطرہ موجود ہو اور یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے۔
رپورٹ میں پاکستانی اعلیٰ سفارتی حکام کو سفارش کی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کےلیے معاملے کو ہر حال میں اعلیٰ سطح پر اٹھایا جائے تاکہ وہ اپنی بقیہ قید کی مدت پاکستان میں پوری کرسکیں جہاں کم از کم ان کی عزت تو محفوظ ہو جس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے ۔عائشہ فاروقی کے مطابق ملاقات کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی دو گھنٹوں تک بات چیت کرتی رہیں اور تمام سوالات کا جواب دیتی رہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے اپنے وکلاء پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا اور اپنے اہل خانہ سے قانونی ٹیم کو بدلنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ انہیں صرف وکیل ٹینا فوسٹر پر اعتماد ہے جو مسلمان ہیں اور ان سے مخلص بھی ہیں جنہوں نے ان کے بیٹے احمد کی افغانستان سے رہائی میں مدد کی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی ان کی رہائی میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
بلکہ حسین حقانی اور اس کا معاون خصوصی 2010 میں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کے مقدمے کے لیے مختص کی گئی 20 لاکھ ڈالر کی رقم بھی ہڑپ کرگئے۔امریکی ریاست ہوسٹن میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جسمانی و جنسی تشدد کی تحقیقات کے لیے امریکی محکمہ انصاف کو خط لکھا جائے اور ان کی جان و عزت کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ان کی کوٹھری میں امریکی جیل کے مرد اہلکاروں کو داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ جیل کے مرد اہلکار ان کے سامان پر پیشاب کردیتے ہیں۔