احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی، جہاں چوتھے روز بھی سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث دلائل دیے۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز استثنیٰ کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہوئے جبکہ کیپٹن صفدر عدالت میں موجود تھے۔
خواجہ حارث نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونرہیں نہ ان سے تعلق ہے، استغاثہ کو لندن فلیٹس کی ملکیت بھی ثابت کرنا تھی۔
سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ واجد ضیاء کا بیان2 حصوں میں تقسیم ہونا ہے، بیان حلفی کے مطابق 1974میں میاں شریف نے گلف اسٹیل بنائی جبکہ طارق شفیع نے کہا 1973میں وہ انیس سال کے تھے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ طارق شفیع نے کہا میاں شریف انہیں بھی دبئی لے گئے، ریکارڈ پرآنے والی ہردستاویز کا جائزہ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا کسی ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے، ٹرانزیکشنز حسین نواز، میاں شریف کے درمیان ہوئی ہیں، فوٹو کاپی کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔
سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ طارق شفیع نے کہا 1978 میں میاں شریف نے مل کے 751 شیئرزبیچے، 1998 میں 25 فیصد باقی شیئرز بھی فروخت کر دیے گئے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ان دستاویزات پر استغاثہ انحصار کررہی ہے جس پر استغاثہ انحصار کر رہی ہےاس میں نوازشریف کا ذکر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے دوسرے بیان خلفی میں بھی نواز شریف کا ذکر نہیں جبکہ 1978 کے معاہدے کا ایک صفحہ غائب ہے، عدالت نے نیب کو تفریق شدہ صفحہ جمع کرانے کا حکم جاری کر دیا۔
مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل نے نوازشریف کےکیپٹل ایف زیڈای سے تنخواہ وصولی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈای سے تنخواہ 2008 کا معاملہ ہے، تنخواہ وصول بھی کی تواس سے ایون فیلڈ کا کیا تعلق ہے۔
نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی جے آئی ٹی نے کوئسٹ سالیسٹرکو کیوں ہائر کیا؟۔
معزز جج محمد بشیر نے کہا کہ کل امجد پرویز دلائل شروع کردیں جس پرمریم نواز کے وکیل نے کہا کہ وہ کل این ایل سی کیس میں پیش ہوں گے، اس کیس میں بھی چیف جسٹس کی ہدایات ہیں۔