کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز اور قیمتوں کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں، اگر اداروں کی رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز سے متعلق سماعت کی۔ اس موقع پر ایم ڈی پی ایس او پیش ہوئے تاہم چیئرمین اوگرا کے پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت کے دوران ایم ڈی پی ایس او نے عدالت کو بتایا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے تناسب سے اوسط قیمت مقرر کی جاتی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات پی ایس او سمیت 22 کمپنیاں خرید رہی ہیں۔ ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ مشترکہ اجلاس میں ہر کمپنی 3 ماہ کی ڈیمانڈ رکھتی ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ سے مطمئن نہیں، آپ کے ریکارڈ کی ماہرین سے تصدیق کرائیں گے اور اگر رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ لوگ بلک گئے ہر ماہ قیمتیں اوپر نیچے کر دیتے ہیں، لگتا ہے سیاسی وڈیروں نے پمپس کھول لئے ہیں ۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی والوں سے ٹرانسپورٹیشن چارجز کیوں لے رہے ہیں؟ یہ پالیسیاں کون بنا رہا ہے؟ جس پر ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ پالیسیاں اوگرا بناتا ہے۔
عدالت میں موجود اوگرا حکام نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اوگرا پالیسیاں بناتا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے طریقہ کار سے متعلق تمام پالیسیاں حکومت بناتی ہے۔
ذمے داریاں کی ٹال مٹول پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہر ادارہ ایک دوسرے پر ذمے داری ڈال رہا ہے۔
Tags پیٹرولیم مصنوعات